ہتھنی نور جہاں کی موت کے بعد مدھوبالا کو کراچی چڑیا گھر سے سفاری پارک منتقل کرنے کا منصوبہ
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) نے جون کے تیسرے ہفتے تک ہاتھی مدھوبالا کو کراچی زولوجیکل گارڈن سے وسیع و عریض سفاری پارک منتقل کرنے کا منصوبہ بنالیا۔
یہ بات کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے حکام نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی۔
ہتھنی مدھوبالا جو اپنی نوعمری میں ہے، اپنی دیرینہ ساتھی نور جہاں کے گزشتہ ہفتے انتقال کے بعد سے کراچی چڑیا گھر میں تنہا رہ گئی ہے، بیمار نور جہاں نے 22 اپریل عید الفطر کے پہلے روز اپنی آخری سانسیں لیں ، رواں ماہ کے شروع میں تالاب میں گرنے کے بعد طویل عرصے سے علیل ہتھنی کی حالت مزید خراب ہوگئی تھی۔
نور جہاں کی موت نے مدھوبالا کی صحت اور زندگی کے لیے تشویش میں اضافہ کر دیا ہے، ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اسے فوری طور پر سفاری پارک میں منتقل کر دیا جائے جہاں دو اور ہاتھی بھی موجود ہیں۔
گزشتہ ہفتے اینیمل ویلفیئر آرگنائزیشن فور پاز انٹرنیشنل کی ایک ٹیم ہاتھی کی منتقلی کے سلسلے میں حکام کی مدد کے لیے کراچی پہنچی۔
آج ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے، ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے کہا کہ مدھوبالا کو سفاری پارک منتقل کرنا ایک بہت مشکل کام ہے۔
انہوں نے مشکلات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک بہت بڑا جانور جس کا وزن 2 ہزار کلو گرام سے زیادہ ہے، اسے ایک کنٹینر میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے، اس کام کے لیے مہارت اور سائنسی تحقیق کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے کہا کہ مدھوبالا کو شفٹ کرنے کا منصوبہ فور پاز کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا ہے اور اس پر کام جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسے ایک کنٹینر کے ذریعے منتقل کیا جائے گا، کنٹینر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے لیکن اسے مکمل ہونے میں کچھ ہفتے درکار ہوں گے۔
کے ایم سی ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے شیئر کیے گئے کنٹینر کا خاکہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ 5ہزار 880 ملی میٹر چوڑا اور 3ہزار 150 ملی میٹر لمبا ہوگا۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے کہا کہ مدھوبالا کو جون کے وسط تک سفاری پارک منتقل کردیا جائے گا۔
عہدیدار نے بتایا کہ کراچی چڑیا گھر کے عملے نے مدھوبالا کو نقل مکانی کے لیے تربیت دینا شروع کر دی ہے جس میں کنٹینر میں داخل ہونا اور منتقلی کے عمل کے دوران اس کے اندر کھڑا ہونا شامل تھا۔
سفاری پارک میں اس کی رہائش کے بارے میں ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے کہا کہ مدھوبالا اور باقی دو ہاتھیوں کے لیے وہاں ایک ہاتھی گھر بنایا جائے گا جس کی تفصیلات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
سفاری پارک شہر کے وسط میں واقع کراچی چڑیا گھر کے برعکس کافی مختلف ہے جو قدرتی ماحول کے ساتھ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ ڈائریکٹر کراچی چڑیا گھر کنور ایوب نے بتایا کہ آج مدھوبالا اور سفاری پارک میں موجود دیگر دو ہاتھیوں کے خون کے نمونے لے لیے گئے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ جانور فٹ ہیں یا نہیں۔
انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ یہ ٹیسٹ مدھوبالا کی منتقلی سے پہلے بہت اہم ہیں، یہ خون کے نمونے یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور بھیجے گئے ہیں۔
کنور ایوب نے کہا کہ ٹیسٹ کی رپورٹس دو سے تین دنوں میں جاری کر دیے جائیں گے، حکام اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ مدھوبالا کو با حفاظت منتقل کرنے کے لیے تمام مطلوبہ کوششیں کی جائیں۔
ہاتھیوں کی پناہ گاہ
دوسری جانب آج جاری کردہ ایک بیان میں فور پاز نے تصدیق کی کہ حکام نے مدھوبالا کو دوسری جگہ منتقل کرنے اور شہر میں بقیہ افریقی ہاتھیوں کے لیے ایک پناہ گاہ قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ہم مدھوبالا کے مستقبل کے تحفظ کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے تاکہ اسے نور جہاں جیسی تکلیف دہ صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس سے قبل فور پاز کے ڈاکٹر امیر خلیل نے کہا تھا کہ تنظیم ہاتھی کو کسی دوسرے چڑیا گھر یا سفاری پارک منتقل نہیں کرنا چاہتی،اسے ہاتھیوں کی پناہ گاہ میں منتقل کیا جانا چاہیے جسے پاکستان میں عالمی معیار کے مطابق بنایا جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس کے لیے بہت بڑی جگہ اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے اور ہمیں آج سے اس منصوبے پر کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر کے چڑیا گھروں نے ان کی ضروریات کے مد نظر ہاتھیوں کی نمائش کو مرحلہ وار ختم کر دیا ہے اور جانوروں کو پناہ گاہوں میں بھیج رہے ہیں۔
ہاتھیوں کے ضروریات کے مطابق پناہ گاہ کے قیام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کے ایم سی عہدیدار ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے کہا کہ اس کے لیے 10 سے 12 ایکڑ پر پھیلے ہوئے بڑے رقبے کی ضرورت ہوگی، انہوں نے مزید کہا کہ حکام اس معاملے پر فور پاز ٹیم کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور کئی آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔
نور جہاں کا پوسٹ مارٹم کرلیا گیا
فور پاز کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی ٹیم نے ڈاکٹر خلیل کی نگرانی میں نور جہاں کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔
اس میں بتایا گیا تھا کہ تمام اعضا کے ساتھ ساتھ جوڑوں کے سیال سے مختلف نمونے حاصل کیے گئے تھے، متوقع نتائج تقریباً 2 ہفتوں میں مل جائیں گے۔
کراچی چڑیا گھر کے عہدیدار کنول ایوب نے مزید بتایا کہ یہ نمونے بھی لاہور بھیجے گئے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ رپورٹس موصول ہونے کے بعد شیئر کی جائیں گی۔
انہوں نے یہ بھی عزم کیا کہ حکام نور جہاں کے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کو سامنے لانے کے لیے پرعزم ہیں، اس طرح کی مجرمانہ کارروائیوں کا اعادہ نہیں کیا جائے گا۔“
مزید یہ کہ چڑیا گھر انتظامیہ نے ہتھنی کی موت کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کا اشارہ بھی دیا۔
کراچی کے چڑیا گھر میں افریقی ہتھنی ’نور جہاں‘ کا 5 اپریل سے ٹیومر کا ہنگامی بنیادوں پر علاج جاری تھا لیکن کچھ ہی دنوں بعد اس کی حالت بگڑ گئی اور وہ کھڑے ہونے کے بھی قابل نہ رہی، اس کی حالت میں سدھار لانے کے لیے مسلسل کوششیں کی جا رہی تھیں۔
یاد رہے کہ کراچی چڑیا گھر میں موجود ہتھنی نورجہاں جوڑوں کے درد کی وجہ سے پچھلی ٹانگوں پر وزن ڈالنے سے معذور ہو گئی تھی۔
اس ماہ کے اوائل میں فور پاز کی ٹیم کراچی چڑیا گھر پہنچی تھی جہاں کئی مہینوں سے تکلیف سے دوچار ہتھنی کے علاج کی تشخیص میں حکام ناکام رہے تھے اور ہتھنی تکلیف اور بیماری کی شدت کے سبب حرکت کرنے سے بھی قاصر تھی۔
غیر ملکی ماہرین سے علاج کروانے کے بعد اس کی حالت میں بہتری آئی تھی جنہوں نے اس کے پیٹ میں ایک بڑے ٹیومر کا پتا لگایا تھا۔
ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ نور جہاں کی حالت تشویشناک ہونے کے سبب اسے دوائیوں اور جسمانی علاج کے ساتھ 24 گھنٹے نگرانی کی ضرورت ہے۔
مبینہ طور پر چڑیا گھر کا عملہ ہدایات پر عمل درآمد میں لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہا تھا اور ٹیم کے جانے کے چار دن کے اندر مبینہ طور پر ہتھنی تالاب میں گر گئی تھی۔
گزشتہ سال اگست میں نور جہاں اور ان کے ساتھ رہنے والی مدھوبالا کا فور پاز کی ٹیم نے دانت کے انفیکشن کے لیے آپریشن کیا تھا۔
2021 میں ٹیم نے سندھ ہائی کورٹ کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں جانوروں کی حالتِ زار پر پریشان شہریوں کے ایک گروپ کی جانب سے رابطہ کرنے کیا گیا تھا اور ہاتھیوں کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں اقدامات کی سفارش کی گئی تھی۔
ٹیم نے چڑیا گھر کے ہاتھیوں کو اس بنیاد پر سفاری پارک میں منتقل کرنے کا مشورہ دیا کہ اس میں صوتی آلودگی نسبتاً کم اور مخصوص ماحول میسر ہے۔
نورجہاں اور مدھوبالا دونوں کو دو دیگر سفاری ہاتھیوں کے ساتھ 2010 میں تنزانیہ میں بہت چھوٹی عمر میں پکڑ کر ان کی ماؤں سے الگ کر دیا گیا تھا اور ایک متنازع معاہدے کے تحت کراچی لایا گیا تھا۔
پاکستان کے چڑیا گھروں پر اکثر جانوروں کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کرنے کا الزام لگتا رہا ہے اور 2020 میں ایک عدالت نے دارالحکومت اسلام آباد میں موجود واحد چڑیا گھر کو خستہ حالی اور جانوروں کی مناسب دیکھ بھال نہ کرنے کے سبب بند کرنے کا حکم دیا تھا۔