ثاقب نثار نے لیک آڈیو کو ’چوری‘ قرار دیتے ہوئے اس کے مستند ہونے پر سوال اٹھادیا
سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے خود سے منصوب لیک آڈیو کو ’چوری‘ کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کے مستند ہونے پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
تازہ ترین لیک کلپ میں سابق چیف جسٹس اور پی ٹی آئی کے قانونی مشیر خواجہ طارق رحیم کو اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ایک ہائی پروفائل کیس سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے سنا گیا۔
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ثاقب نثار نے آڈیو کلپ کو رازداری کے حق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ میرے بنیادی حقوق کی چوری کے مترادف ہے۔
انہوں نے لیک ہونے والے کلپ کی صداقت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ میں پاکستان کا شہری ہوں، سابق چیف جسٹس ہوں اور میں لوگوں کو مفت مشورہ دیتا ہوں، خواجہ طارق رحیم دوست ہیں اور میں نے انہیں مشورہ دیا تھا۔
وائرل آڈیو کلپ جس کی ڈان ڈاٹ کام نے آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی، اس میں ایک آواز سنی گئی جو مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس کی ہے۔
اس میں مبینہ طور پر ثاقب نثار کی جانب سے پی ٹی آئی کے خواجہ طارق رحیم کو 2010 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔
لیک آڈیو میں ثاقب نثار مبینہ طور پر کہتے ہیں کہ ’پلیز اس میں دیکھیں، یہ سات ممبر بینچ کا فیصلہ ہے، یہ 2010 کا سوموٹو نمبر 4 ہے، سر سپریم کورٹ کے سات رکنی فیصلہ 2012 کے صفحہ نمبر 553 پر رپورٹ کیا گیا ہے‘، اس موقع پر کال کے دوسرے جانب پر موجود شخص جسے طارق رحیم سمجھا جاتا ہے نے اثبات میں جواب دیا۔
سابق چیف جسٹس نے مبینہ طور پر کہا کہ ’جو بھی آپ کا وکیل ہے، اسے کہیں کہ وہ ہ اسے دیکھ لے، اس میں کہا گیا ہے، جب آپ اسے کب پڑھیں گے تو پتا چل جائےگا کہ اس میں کیا لکھا گیا ہے‘۔
جواب میں پی ٹی آئی کے وکیل نے مبینہ طور پر کہا کہ ’میں پڑھوں گا، میں نے سات رکنی بینچ کا فیصلہ دیکھا ہے، انہوں نے اس فیصلے میں کہا ہے کہ جب تک ایکٹ تشکیل نہیں دیا جاتا، اگر آپ اسے غور سے پڑھیں تو شق تین میں یہ ہے‘۔
اس پر مبینہ طور پر ثاقب نثار نے جواب دیا ’ہاں میں نے دیکھا ہے، یہ تمہارے لیے باہر نکلنے کا راستہ ہے اور دوسری بات طارق صاحب اگر آپ میں سے کوئی شخص تیار ہے تو آپ منیر احمد خان [فیصلہ] استعمال کر سکتے ہیں جو کہ توہین عدالت کا واضح کیس ہے۔‘
اس پر مبینہ طور پر طارق رحیم نے جواب دیا کہ ’وہ بھی، وہ بھی‘، جس کے بعد سابق چیف جسٹس نے مبینہ طور پر کہا کہ ’آزاد جموں و کشمیر میں جو کچھ ہوا اس کے بعد، مجھے نہیں لگتا کہ کوئی‘۔
اس شخص کو ٹوکتے ہوئے جسے ثاقب نثار سمجھا جاتا ہے، دوسری جانب موجود شخص کہتا ہے کہ ’ہم صرف تین رکنی بینچ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں، اس کے آنے میں مزید آدھا گھنٹہ لگ سکتا ہے، اس کے بعد ہم توہین عدالت کی درخواست دائر کر رہے ہیں‘۔
یہ آڈیو کلپ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 2 روز بعد چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات سے متعلق کیس کی دوبارہ سماعت شروع کرنے والا ہے۔
رواں ماہ کے شروع میں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات 14 مئی کو کرانے کی ہدایت کی تھی، تاہم حکومت نے عدالت عظمیٰ کے احکامات کو مسترد کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کا مشورہ دیا تھا اور انہیں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی تھی، توقع ہے کہ 27 اپریل کو کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوگی۔
تازہ ترین آڈیو گزشتہ چند روز میں منظر عام پر آنے والا دوسرا کلپ ہے، اتوار کے روز سامنے آنے والی ایک آڈیو میں مبینہ طور پر دو خواتین کے درمیان ہونے والی گفتگو کو سنا گیا جن میں سے ایک کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے ایک اعلیٰ ترین حاضر سروس جج کی ساس ہیں جب کہ دوسری خاتون کے بارے میں کہا گیا کہ وہ مبینہ طور پر طارق رحیم کی شریک حیات ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی آڈیو میں دونوں خواتین کو خیبرپختونخوا اور پنجاب کے انتخابات سے منسلک کیس پر گفتگو کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
عدالت کو سیاسی معاملات طے کرتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط برتنی چاہیے، رہنما مسلم لیگ (ن)
قبل ازیں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور خواجہ طارق کی مبینہ آڈیو لیک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تانے بانے اس ہی معاملے سے مل رہے ہیں کہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ توہین عدالت کے کیس میں حکومتی شخصیات کو کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے۔
لاہور میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک احمد خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالت کو سیاسی معاملات طے کرتے ہوئے بہت زیادہ احتیاط برتنی چاہیے، آج ایک اور آڈیو لیک منظر عام پر آگئی ہے، ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سات پردوں میں بات کرتے ہیں لیکن باتیں کہیں نا کہیں سے نکل آتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ گفتگو ملک کے سینئر ترین وکیل اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے درمیان ہوئی، اس کو سن کر یہی لگ رہا ہے کہ تانے بانے اس ہی معاملے سے مل رہے ہیں کہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ توہین عدالت کے کیس میں حکومتی شخصیات کو کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے، اس آڈیو میں اسی حوالے سے مشورے دیے جارہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک ٹرینڈ ہے جس سے سارا پرچہ آؤٹ ہوگیا ہے، آج سے چند ہفتے قبل بھی ایک آڈیو سامنے آئی تھی جس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب کہہ رہے تھے کہ یہ معاملہ فلاں بینچ کے سامنے سنا جائے تو مناسب رہے گا۔
ثاقب نثار کی حالیہ آڈیو لیک پر ازخود نوٹس بنتا ہے، ملک احمد خان
اس موقع پر وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک احمد خان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اس معاملے پر اب ازخود نوٹس لینا بنتا ہے جس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور سپریم کورٹ کے وکیل احمد طارق رحیم ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کے ’کوڈ آف کنڈکٹ‘ کا آرٹیکل 4-3 کہتا ہے کہ دوست اور احباب آپ کے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہوسکتے، اگر اس آرٹیکل کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو ہم ان لوگوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے میں حق بجانب ہیں۔
ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ میں نے آج وزیر قانون سے درخواست کی ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرلیں اور آئین میں تشریح کے لیے ان کا حق تسلیم کرتے ہوئے ان کی آئین میں کی گئی ترمیم پر بھی آپ قانون سازی کریں۔
ثاقب نثار آپ کی آڈیو سنی، آپ نواز شریف دشمنی میں بہت دور چلے گئے، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میاں ثاقب صاحب آپ کی آڈیو سنی، بہت دکھ ہو، آپ نواز شریف دشمنی میں بہت دور چلے گئے۔
ٹوئٹر پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ آپ نے 14/15 سال قبل اپنے نواز شریف، شہباز شریف کے ساتھ 2 گلے مجھ سے بیان کیے جو سراسر بے بنیاد ہیں، میں میڈیا پر حقیقت بیان کر سکتا ہوں، آپ نے نواز شریف سے بدلہ لے لیا، اس کو سزا سنائی، اب کتنی دیر اور اس زہر کو پالتے رہیں گے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ 2017 کی حکومت کی تبدیلی اور جوڈیشل مارشل لا کی سازش کا ماسٹر مائنڈ اب بھی متحرک ہے۔
آڈیو لیک
سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں کئی آڈیو لیکس سامنے آئیں جن میں وزیراعظم شہباز شریف، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز سمیت اہم حکومتی اور اپوزیشن شخصیات شامل ہیں۔
بظاہر غیر رسمی بات چیت پر مشتمل کلپس سامنے آنے کے بعد سرکاری دفاتر خصوصاً وزیر اعظم آفس کی سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا۔
وزیر اعظم نے آڈیو لیکس کے منظر عام پر آنے کو انتہائی سنگین کوتاہی قرار دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں آڈیوز کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کو ایک خط بھی لکھا تھا اور آئین کے آرٹیکل 14 (رازداری کا بنیادی حق) سمیت عوام کے دیگر بنیادی حقوق کے ’نافذ‘ کا مطالبہ کیا تھا۔