• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

جس بینچ پر پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کیا، اس کے سامنے کیسے پیش ہو جاؤں، فضل الرحمٰن

شائع April 20, 2023
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پریس کانفرنس کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پریس کانفرنس کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس بینچ پر پارلیمنٹ عدم اعتماد کر چکی ہے، ایک سے زائد قراردادیں پاس ہو چکی ہیں، جس بینچ پر پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کیا ہے آج اس بینچ کے سامنے میں کیسے پیش ہو جاؤں، بینچ کے سامنے پیش ہونا نہ پارلیمنٹ کی قرارداد کا تقاضا ہے نہ ان کو یہ اطمینان دلانا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کل عبدالخیل میں بلاول بھٹو تشریف لائے تھے، ویسے تو وہ مفتی عبدالشکور کی اندہناک حادثے میں وفات پر تعزیت کرنے کے لیے آئے تھے لیکن ظاہر ہے کہ جب سیاسی لوگ ساتھ بیٹھتے ہیں تو سیاسی امور بھی زیر بحث آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلاول نے بھی سیاسی امور پر بات کی اور فون پر آصف علی زرداری سے بھی بات ہوئی، اس کے بعد مسلم لیگ(ن) کی قیادت، ان کے وزرا نے فون پر بات کی اور ان کا خیال تھا کہ عدالت نے بلایا ہے اور عدالت ہمیں کہہ رہی ہے کہ آپ عمران خان سے بات کریں اور الیکشن کی کسی ایک تاریخ پر اتفاق رائے کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنا موقف دیا ہے کہ عدالت اپنی پوزیشن واضح کرے کہ کیا وہ ایک عدالت ہے یا پنچایت ہے، جس طرح وہ انصاف کے مندر سے ہتھوڑا بجا رہے ہیں، آئین کی رو سے 90 دن میں الیکشن کرانا ناگزیر ہے لیکن اگر عمران خان آپ سے کسی ایک تاریخ پر آپ سے اتفاق کر لیں تو قبول ہے، یہ کونسا آئین ہے، یہ کس آئین کا تقاضا ہے کہ وہ چاہیں تو پھر 90 دن آئین کے تحت ناگزیر ہیں اور اگر عمران خان کسی اور تاریخ پر راضی ہو جائے تو وہ تاریخ ہمیں قبول ہو گی۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ جس شخص کو اب تک نااہل ہوجانا چاہیے تھا، جس کو پاکستان کی سیاست کے دائرے سے باہر رکھا جانا چاہیے تھا، ہماری سپریم کورٹ اس کو سیاست کا محور بنا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی قانون پاس کر چکی ہے، عدالت جس اختیار کے تحت ہمیں دھونس دکھا رہی ہے شاید اب اس کا وہ اختیار نہیں رہا ہے، اسے پارلیمنٹ کے ایکٹ کا احترام کرنا ہو گا اور اس کی پیروی کرنی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں عدالت میں بلایا گیا لیکن ہم نے عدالت، اپنے دوستوں اور حکمران اتحادیوں سے بھی کہا کہ اس بینچ کے اوپر پارلیمنٹ عدم اعتماد کر چکی ہے، ایک سے زائد قراردادیں پاس ہو چکی ہیں، ہمارا وزیر قانون اور اٹارنی جنرل انہیں جا کر یہ بتا چکا ہے کہ ہم آپ پر عدم اعتماد کررہے ہیں، جس بینچ پر پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کیا ہے اور پارلیمنٹ کے فیصلے سے اس کو آگاہ کیا گیا ہے، آج اس بینچ کے سامنے میں کیسے پیش ہو جاؤں، اسے یقین دہانیاں کراؤں، لہٰذا بینچ کے سامنے پیش ہونا نہ پارلیمنٹ کی قرارداد کا تقاضا ہے نہ ان کو یہ اطمینان دلانا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، ہم کس شخص سے مذاکرات کریں، اگر وہ واقعی الیکشن چاہتا تھا تو اس وقت قومی اسمبلی کیوں نہیں توڑ رہا تھا، اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کیوں نہیں توڑ رہا تھا، اس نے ملک کی سیاست میں مشکل پیدا کرنے کی غرض سے حرکتیں کی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان نے عمداً یہ حرکت نہیں کی تو پھر اسمبلیاں توڑ حماقت کی ہے، یہ لوگ ملک کے اندر ایسے اقدامات کریں جو سراسر احمقانہ ہوں، ان کو یہ پتا ہی نہیں ملکی مفاد کس میں ہے، ان کو یہ ادراک ہی نہیں ہے کہ ملکی سلامتی کے تقاضے کیا ہیں، ایسے ایسے احمقانہ فیصلے کرتے ہیں اور عدالت ہمیں کہتی ہے اس ٹرک کے پیچھے چلیں، تو ہم عدالت کے اس جبر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم اس پورے عمل کو غیرسیاسی عمل کہتے ہیں، پھر یہ ہو جائے گا، پھر ہو ہوجائے گا، بساط لپٹ جائے گی، کب تک ہمیں ان باتوں سے گمراہ بلیک میل کیا جاتا رہے گا، ایک دور تھا کہ ہمیں بندوق کے سائے میں کہا جاتا تھا کہ بات چیت کرو، آج ہمیں ہتھوڑے کے سامنے کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات اور بات چیت کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر ہم کس شخص سے بات کریں، وہ شخص جو کہتا ہے کہ میں الیکشن کے نتائج آنے کے بعد فیصلہ کروں گا کہ مجھے نتائج تسلیم ہیں یا نہیں، یعنی ہم مذاکرات اس بات پر کریں کہ انہیں یقین دلائیں کہ آپ کی اکثریت آئے گی، جس شخص نے کہا ہے کہ اگر میری دو تہائی اکثریت نہ آئی تو میں الیکشن کو نہیں مانوں گا، جو شخص یہاں تک کہتا ہے کہ اگر میری سادہ اکثریت آئی تو بھی میں اسمبلیاں توڑوں گا اور دوبارہ الیکشن کراؤں گا، اقتدار کی حرص میں اس طرح کی باتیں کرنا اور پھر ہمیں کہنا اس سے بات کریں، یہ تو پوری سیاست کی توہین ہے، یہ پارلیمنٹ کی توہین ہے۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ چیف جسٹس اور آپ کے دو یا تین رفقا کو میں براہ راست کہنا چاہتا ہوں کہ آپ انتہائی معزز کرسی پر بیٹھ کر ہماری توہین کررہے ہیں، ایک شخص کی خوشنودی اور اسے تحفظ دینے کے لیے آپ پوری قوم کو ذلیل کررہے ہیں، وزارت دفاع کی درخواست کو مسترد کررہے ہیں اور ایک ایسا شہری جس کا ایک پتا اسلام آباد کا ہے اور دوسرا ایبٹ آباد کا ہے، اس کو پنجاب کے الیکشن سے کیا دلچسپی ہے، اس کا کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہے لیکن اس کی درخواست پر آپ کارروائیاں کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہ عمران خان کو اس کا اہل سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ بات چیت کی جائے، ہم ان کے جرائم کی بنیاد پر انہیں نااہل سمجھتے ہیں، عدالت پہلے اس کی بنیاد پر فیصلہ دے کہ یہ شخص ان جرائم میں ملوث ہے اور اس بنیاد پر وہ نااہل ہے، جس کو سیاست کے دائرے سے نکالنا چاہ رہے ہیں، سپریم کورٹ اسے سیاست کا محور بنانے کی کوشش کررہی ہے، یہ نہیں چلے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سپریم کورٹ کے انصاف کو تسلیم کرتا ہوں لیکن ہتھوڑے کو تسلیم نہیں کرتا، جبر نہیں چلے گا، اگر آپ نے جبر کی بنیاد پر ہم پر فیصلے مسلط کیے تو ہم بھی آپ کی عدالت میں جانے کے بجائے عوام کی عدالت میں جائیں گے اور پھر فیصلہ عوام کی عدالت میں ہو گا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کے فلور پر اس رویے پر غور کرنا چاہیے، جب پارلیمنٹ سپریم ہے تو پھر اگر وہ ہمیں بلا سکتے ہیں تو پارلیمنٹ نہیں کیوں نہیں بلا سکتی۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ سپریم کورٹ کہتی ہے کہ فضل الرحمٰن اپنے رویے میں لچک پیدا کریں تو پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ میں کہتا ہوں کہ سپریم کورٹ اپنے رویے میں لچک پیدا کرے، میں ان سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ جس پر بیٹھے ہیں اگر عمران خان کے لیے لچک پیدا کر سکتے ہیں تو ہمارے لیے لچک پیدا کیوں نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کسی تاریخ پر اتفاق کرے تو 14مئی کی تاریخ کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن ہم اپنا موقف دے رہے ہیں تو پھر ہمارے لیے 14 مئی ضروری ہے، یہ جو واضح فریق بن کر کردار ادا کررہے ہیں تو استعفے دے کر سیاست میں آ جائیں۔

مفتی عبدالشکور کی حادثے میں موت کی تحقیقات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ مفتی صاحب کی شہادت کے بعد ابھی تک ایسے شواہد نظر نہیں آ رہے کہ یہ کوئی سازش تھی، یہ ایک حادثہ ہے جس کی تحقیقات قانون نافذ کرنے والے ادارے کررہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024