ایک ساتھ انتخابات: عدالت 14 مئی کو الیکشن کرانے کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے معاملے پر سماعت 27 اپریل تک ملتوی کردی جب کہ عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان 26 اپریل کو ایک ملاقات طے ہے۔
اس سے قبل آج سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کو شام 4 بجے تک مل بیٹھنے اور ملک میں انتخابات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا وقت دیا تھا، اس کے ساتھ ہی عدالت عظمٰی نے یہ بھی کہا تھا کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، کسی نے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے آج معاملے کی سماعت کی جس کا 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔
آج کی سماعت کے دوران اتحادی جماعتوں نے عدالت کو بتایا کہ عید کے بعد اپوزیشن سے مذاکرات کا منصوبہ ہے تاہم چیف جسٹس نے سیاسی قائدین کو انتخابات کے معاملے پر آج ہی مشاورت کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے سماعت میں 4 بجے تک کا وقفہ کردیا تھا۔
تاہم شام 4 بجے تک سماعت دوبارہ شروع نہیں ہوئی تھی، اس کے بجائے پیپلزپارٹی کی نمائندگی کرنے والے فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل فار پاکستان منصور عثمان اعوان نے چیف جسٹس بندیال سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی۔
شام 5 بج کر 30 منٹ کے قریب فاروق ایچ نائیک نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کو آگاہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ سماعت اب 27اپریل کو ہوگی۔
اسی دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج ایک دوسرے کو کچھ وقت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ کی جانب سے آج کی سماعت کے جاری تحریری حکمنامے میں کہا گیا کہ سیاستدانوں کے آپس کے تمام اختلافات پر مذاکرات کا اصل فورم سیاسی ادارے ہیں، عدالت کو ایک ہی دن پورے ملک میں انتخابات کے لیے مذاکراتی عمل پر کوئی اعتراض نہیں، ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کا انعقاد قانونی اور آئینی سوال ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات سے متعلق فیصلہ برقرار ہے، تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کے فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی پابند ہیں، فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل نے ان چیمبر ملاقات کی، ملاقات میں حکومت اور تحریک انصاف کے رہنما کے درمیان رابطہ کا بتایاگیا۔
عدالت عظمٰی نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ عید کی چھٹیوں کے باعث رابطوں میں وقفہ کیا جا رہا ہے، اکثر سیاسی رہنما عید کے باعث اپنے آبائی علاقوں میں ہیں، رہنماوں کی مزید ملاقات 26 اپریل کو ہوگی، کیس کی مزید سماعت 27 اپریل کو ہوگی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے عدالت کے سامنے ملک میں ایک ہی دن الیکشن کی رائے سے نہ صرف مثبت ردعمل بلکہ اتفاق بھی کیا، سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ میں پیش ہو کر اس عزم کو دہرایا کہ آئین سپریم ہے، اگر سیاستدانوں کے مابین تمام اختلافات پر مذاکراتی عمل شروع ہوا تو اس پر کافی وقت خرچ ہونے کا امکان ہے۔
تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو بتایا گیا کہ 26اپریل کو سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اجلاس ہوگا، 27 اپریل تک سیاسی رابطوں اور ڈائیلاگ کی پیش رفت رپورٹ جمع کروائی جائے گی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز وزارت دفاع کی جانب سے ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست پر سماعت کرنے کے بعد عدالت نےدرخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے آج پیشی پر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو طلب کیا تھا۔
آج سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے دعا کی کہ مولا کریم لمبی حکمت دے تا کہ صحیح فیصلے کر سکیں، ہمیں نیک لوگوں میں شامل کر اور ہمارے جانے کے بعد اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے نیک کام شروع کیا اللہ اس میں برکت ڈالے، عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں؟
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتے ہیں، ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے، ہمیشہ راستہ نکالنے اور آئین کے مطابق چلنے کی کوشش کی۔
شاہ محمود نے مزید کہا کہ قوم نے آپ کا فیصلہ قبول کیا ہے، دیکھتے ہیں کی حکومت کا کیا نقطہ نظر ہے، ہمارے جماعت آئین کے تحفظ پر آپ کے ساتھ ہے۔
درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے، مناسب ہو گا عدالت تمام قائدین کو سن لے، جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی قائدین کا تشریف لانے پر مشکور ہوں، صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے، قوم میں اضطراب ہے، قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا، عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں، سیاسی قائدین افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کریں تو برکت ہو گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں الیکشن ہوں اور درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نظر ہوگیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فاروق نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا، اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں، مسلم لیگ (ن) نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے۔
کسی ادارے کی مداخلت کے بغیر الیکشن ہونے چاہئیں، فاروق ایچ نائیک
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ مؤقف ہے کہ 90 دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے، عدالت دو مرتبہ 90دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے، سیاسی جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ انتخابات کا کام شروع کر چکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری نے اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی، آصف علی زرداری بھی اتحادیوں سے مشاورت کر رہے ہیں، عید کے فوری بعد حکومتی اتحاد کے اندر سیاسی ڈائیلاگ کریں گے پھر پی ٹی آٸی سے پھر مذاکرات کریں گے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔
فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ان مذاکرات سے سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو، الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو ایک ہی دن ہونے چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات ایک دن میں ہوں تو بہت بہتر ہوگا، حکومتی جماعتوں کا پہلے بھی یہی موقف تھا کہ ایک ساتھ انتخابات ہونے چاہئیں، کیوں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کا وقت میں گزر چکا ہے۔
فاروق ایچ نائیک کا مزید کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کسی ادارے کی مداخلت کے بغیر الیکشن ہونے چاہئیں۔
ہم جو میڈیا پر بات کرتے ہیں اصل میں ویسا نہیں ہوتا، خواجہ سعد رفیق
عدالت میں اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ہم قیادت کے مشورے کے بعد آپ کے سامنے آئے ہیں، ملک میں انتشار اور اضطراب نہیں ہونا چاہیئے، یقین رکھتے ہیں کہ ایک ہی دن الیکشن ہونے چاہیئیں۔
رہنما مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ ہم مقابلے پر نہیں مکالمے پر یقین رکھتے ہیں، ہم سیاسی لوگوں کو مذاکرات کے ذریعے حل نکالنا چاہیئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عید کے بعد اتحادیوں کا اجلاسں بلایا ہے، اپوزیشن کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، ہم جو میڈیا پر بات کرتے ہیں وہ اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں کچھ کردار سوشل میڈیا کا بھی ہے۔
دورانِ سماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق نے بلوچستان عوامی پارٹی (بی این پی) مینگل کی نمائندگی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاست اپنی جگہ مگر سب اچھے اکٹھے لگتے ہیں، بی این پی مینگل کے لوگ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بی این پی کی قیادت اس وقت دبئی میں موجود ہے، ہم بھی چاہتے ہیں کہ مذاکرات ہوں۔
آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے، طارق بشیر چیمہ
مسلم لیگ (ق) کے قائد چوہدری شجاعت کی ہدایت پر طارق بشیر چیمہ عدالت میں پیش ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پہلے دن سے مذاکرت کا عمل شروع ہو، ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہیے، یہ بہت سے اختلافات کو ختم کردے گا۔
انہوں نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ ایک دن الیکشن کرانے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں، آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم کریں گے تو پھر سب کے لیے بہتر ہوگا۔
قمر الزمان کائرہ نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ ہماری جماعت کی کوشش تھی کہ اس ہیجان کو ختم کیا جائے، پہلے ہم اپنے پارٹی اور پھر اتحاد میں شامل قیادت سے ملے جبکہ کل اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب جب تلخیاں بڑھیں تو اس کے نقصانات نکلے، لیکن مسئلہ پھر بھی مذاکرات سے حل ہوا، ہم نے اس عمل کا آغاز پہلے سے شروع کر رکھا ہے گزشتہ حکومت میں بھی قومی مسائل پر ساتھ چلیں اب بھئ ملک کے لیے مل کر چلیں گے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے صابر قائم خانی عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ مسائل کا حل بات چیت سے نکالا جائے، ملک میں انتخابات ایک دن میں ہوں تو بہتر ہوگا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی جانب سے محمد اسراراللہ ترین عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی ڈائیلاگ ہونے چاہیئیں، ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ الیکشن ایک ہی دن ہوں۔
سیاسی قوتوں نے مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے، شاہ محمود قریشی
دورانِ سماعت پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہوئے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارٹی کا نقطہ نظر ہیش کرچکا ہوں، ایک سیاسی پہلو ہے دوسرا قانونی، آئین 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے، کسی کی خواہش کا نہیں آئین کا تابع ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا لیکن عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ تلخی کی بجائے اگے بڑھنے کے لیے آئے ہیں، سیاسی قوتوں نے مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے جس کا آئینی اور جمہوری راستہ انتخابات ہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہئیں، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں، قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا، حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے، مسلم لیگ (ن) اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد فیصلے سے مکر گئی۔
عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے 17 اپریل تک وسائل فراہم کرنے کا حکم دیا لیکن کیا اس پر عمل ہوا، آئین کے مطابق یہ اپنا ایک پروپوزل دیں ہم اس کو دیکھیں گے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کیا ملک کو پارلیمانی قررادادوں سے چلانا چاہتے ہیں، ہم نہ انتشار چاہتے ہیں نہ آئین سے انحراف، مذاکرات کے حامی ہیں جو آئین کے اندر رہتے ہوئے ہوں۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے قمر الزمان کائزہ نے شاہ محمود قریشی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ تلخ باتیں یہاں کرنا بہتر نہیں،جواب الجواب بھی دے سکتے ہیں۔
قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے، ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے اور مقررہ تاریخ سے آگے بھی گئے، آئین بنانے والے اس کے محافظ ہیں، آئین سے باہر جانے والوں کے سامنے کھڑے ہیں، یقین دہانی کراتے ہیں طول دینے کی کوشش نہیں کریں گیے، سیاست میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اس عدلیہ کو ڈبیٹنگ کلب نہیں بنانا چاہتے، مل کر بیٹھیں گے تو سوال و جواب ہوں گے، ہم ایک دن بھی ائینی مدت سے زیادہ حکومت میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، اگر باتیں اور مکالمہ شروع ہوگا تو وہ لمبا کام ہوگا۔
پاکستان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے روسٹرم پر آکر کہا کہ جو بھی اپ فیصلہ دیں گے قبول ہوگا، ایسا نہ ہو کہ مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عیدیں ایک ساتھ ہوجائیں۔
انہوں نے عدالت نے کہا کہ ساری قوم اپ کو سلام کرتی ہے، سیاسی شخصیات کبھی ڈائیلاگ سے انکار نہیں کرتی، آج ایک سیاسی جماعت نے اس کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہے۔
تاہم اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کسی نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ نہیں کیا۔
عدالت الیکشن کا معاملہ سیاستدانوں پر چھوڑ دے، سراج الحق
عدالت نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو روسٹرم پر بلایا تو انہوں نے بتایا کہ میں رات کو پاک افغان بارڈر سے آکر یہاں عدالت پیش ہوا ہوں، ہماری دعا ہے کہ اللہ ہماری رہنمائی فرمائے۔
ان کا کہنا تھا کہ قرآن کریم کی تلاوت سے عدالتی کارروائی کا آغاز کرنے پر مشکور ہوں، اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو، اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہوجائے تو اللہ پر اعتماد کرو، مذاکرات کرنا آپشن نہیں اللہ کا حکم ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے، آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے، دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہو گیا، جس کے بعد میں سعودی سفیر اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی جو ناکام ہوئے تو مارشل لا لگ گیا۔
سراج الحق نے کہا کہ سیاستدانوں نے اپنا گھر خود ٹھیک کرنا ہے، نیلسن منڈیلا کے ساتھ 30 سال لڑائی کے بعد مذاکرات کیے گیے، نیلسن منڈیلا نے اپنے ایک بیٹے کا نام ڈیکلار رکھا۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ پاکستان جہموری جدوجہد کے نتیجے میں بنا کسی جنرل نے نہیں بنایا، آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ٹوٹتا۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں کسی نے پی ٹی آئی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہے، ہم نہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں نہ پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں، سیاسی لڑائیوں میں رہنماؤں کو نقصان نہیں ہوتا، نقصان عوام کو پہنچتا ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ جنوبی افریقہ میں 30 سال کے بعد ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کا حل نکلا، سیاست، جمہوریت اور آمریت میں فرق ہے، جمہوریت اور سیاست میں بات چیت ہوتی ہے لیکن آمریت میں خواہش سامنے ہوتی ہے۔
عدلیہ، افواج اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور ہونا چاہیے، سراج الحق
انہوں نے مزید کہا کہ کسی کی ذاتی خواہش پر الیکشن نہیں ہوسکتے، 90 دن سے الیکشن 105 دن پر آگئے ہیں، اگر 105 دن ہوسکتے ہیں تو 205 دن بھی ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا نے پوچھا کہ مذاکرات کے لیے کیا آپ کو اسٹیبلشمنٹ نے اشارہ کیا ہے، میرا مؤقف ہے عدلیہ، افواج اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور ہونا چاہیے، ہر کسی کو اپنے مؤقف سے ایک قدم ہیچھے ہٹنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مسائل کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیر سیاسی نہیں ہوئے، سیاسی جماعتیں کبھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں، ہمارا مؤقف کبھی ایک کو اچھا لگتا ہے کبھی دوسری جماعت کو۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ اس وقت لوگ آٹے کے ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، دنیا میں ہماری تصویریں دکھائی جاتی ہیں، بازاروں میں لوگوں کے چہروں پر خوشی نہیں ،دکاندار کہتے ہیں گاہک قیمت پوچھ کر آگے نکل جاتا ہے۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزیر اعظم اور عمران خان سے ملاقات کی، دونوں سیاسی جماعتوں سے اخلاص کے ساتھ بات کی، مجھ سے پوچھا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کہ کہنے پر بات تو نہیں کی، میں تو چاہتا ہوں کہ سب اداروں کو ازاد رہنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان کو کہا کہ میری عمر 60 سال ہے اور میں اپنی مزید عمر آمریت کے سائے میں نہیں گزار سکتا، جس پر عمران خان نے کہا کہ میری عمر آپ سے بھی زیادہ ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ گندم کی کٹائی اور حج کا سیزن گزرنے دیا جائے، بڑی عید کے بعد مناسب تاریخ پر الیکشن کرانا ٹھیک رہے گا، عدالت یہ معاملہ سیاست دانوں پر چھوڑے اور خود کو سرخرو کرے، عدالت پنجاب میں الیکشن کا شیڈول دے چکی ہے۔
پارٹی سربراہان مشاورت کیلئے عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں، عدالت
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کروانے کا آخری دن ہے، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا ، پارٹی ٹکٹ کے لیے وقت میں اضافہ کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے 13 دن کی تاخیر کے بعد حکم دیا تھا، الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کے لیے بااختیار ہے، پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر الیکشن کمیشن شیڈول تبدیل کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن رجوع کرے عدالت مؤقف سن لے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے، آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے، آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی، آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اس کی تشریح نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا، پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے۔
انہوں نے کہا کہ سراج الحق، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے، ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی، حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کچھ اور تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یاد رکھنا چاہیئے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے، یقین ہے کہ کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا، آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی، دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، گزارش ہو گی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں، ایک ہی نکتہ ہے اس پر مل کر بات کریں۔
جولائی میں بڑی عید ہو گی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں، عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے، دو امکانات ہیں کہ سماعت ختم کریں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ تمام لیڈرز نے آئین کی پاسداری کی بات کی ہے، ملک کا نظام آئین کے تحت چلتا ہے اس پر عمل نہیں کریں گے تو اگر مگر میں پھنس جائیں گے۔
پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کا فیصلہ واپس نہیں لیں گے، عدالت
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے 14 مئی کے فیصلے میں ایک وجہ نظر آئی تھی کہ کمیشن تاریخ بدل نہیں سکتا، کچھ غلط فہمیاں ہوئی ہیں، سب کا مؤقف ہے ایک دن میں الیکشن ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ عدالت ان پریکٹیکل چیزوں پر غور نہیں کرسکتی، ہم آئین اور قانون کے پابند ہیں، ہو سکتا ہے پس پردہ جماعت اسلامی نے کچھ کیا ہو، اخبارات میں پیپلز پارٹی کا مؤقف واضح طور پر سامنے نظر آیا ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ عید کے دوران بھی مولانا فضل الرحمٰن سے بات کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے اچھی کوشش کی ہے، توقع ہے مولانا فضل الرحمٰن بھی لچک دکھائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وزارت دفاع نے 14 مئی کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کی، ایسے فیصلے واپس نہیں ہوتے۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ 14 مئی ہے۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل لا کو کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ شیڈول تبدیل کرسکتے ہیں تو کریں۔
بعدازاں عدالت عظمیٰ نے تمام سیاسی جماعتوں کو 4 بجے تک انتخابات سے متعلق مشاورت کر کے عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دیا اور اس وقت تک کے لیے سماعت میں وقفہ کردیا۔
درخواست کا پس منظر
خیال رہے کہ 18 اپریل کو وزارت دفاع نے اپنی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ قومی اور سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ساتھ کرانے کی ہدایت جاری کی جائے۔
یہ استدعا ایک رپورٹ کے ساتھ منسلک درخواست کے ذریعے کی گئی تھی، جسے سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور دیگر محکموں کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات کی تعمیل میں پیش کیا گیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’مسلح افواج کے ارکان کو انتخابی ڈیوٹی کے لیے تیار کرنے کے لیے خاصہ وقت درکار ہے، اس لیے کہ فورس کا بڑا حصہ کافی عرصے سے آپریشنز میں مصروف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پنجاب اور سندھ میں سیکیورٹی کی صورتحال بالترتیب خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری آپریشنز کی کوششوں کے تناظر میں مستحکم ہے۔
درخواست میں وضاحت کی گئی تھی کہ اس لیے خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے فوجیوں کی کسی بھی قسم کی منتقلی کے نتیجے میں پنجاب اور سندھ میں سیکیورٹی کی صورتحال براہ راست متاثر ہوگی۔
پہلی سماعت
19 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے وزارت دفاع کی جانب سے ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست پر سماعت کی اور درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے اگلے روز پیشی پر تمام سیاسی رہنماؤں کو طلب کر لیا تھا۔
عدالت کی جانب سے جاری حکمنامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کو اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ درخواست پر غور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ریلیف دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس معاملے کا فیصلہ عدالت کے حتمی فیصلے سے ہو چکا تھا اور اس طرح اس معاملے کو ناقابل سماعت قرار دے کر نمٹا دیا گیا۔
حکومت کی جانب سے انتخابات کے لیے فنڈز کے اجرا میں ہیش کردہ عذر کے حوالے سے عدالت نے کہا کہ یہ بیانیہ قابل قبول نہیں کہ وفاقی حکومت کے پاس ہمیشہ عام انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کے اخراجات کی اجازت دینے کے لیے ضروری آئینی اختیار اور طاقت نہیں ہوتی۔
حکم نامے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ بحال کرنے کی استدعا کو بھی ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا گیا تھا۔
انتخابات کے لیے فنڈز کے اجرا کا معاملہ
عدالت عظمیٰ نے حکومت کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 10 اپریل تک انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کا حکم دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ حکومت کی جانب سے حکم کی تعمیل سے متعلق رپورٹ 11 اپریل کو فراہم کرے۔
تاہم، حکومت نے معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوایا جس نے عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور فنڈز جاری کرنے سے انکار کردیا۔
گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے سربمہر لفافے میں سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی، معلومات سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ ایک صفحے کی رپورٹ میں عدالت عظمیٰ کو 21 ارب روپے جاری کرنے میں حکومت کی ہچکچاہٹ سے متعلق بتایا گیا۔
اس کے بعد عدالت عظمیٰ نے اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی تھی کہ وہ اکاؤنٹ نمبر ون کے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری کرے اور اس سلسلے میں 17 اپریل تک وزارت خزانہ سے مناسب رابطہ کرے۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد مرکزی بینک نے پیر کے روز فنڈز مختص کیے اور رقم جاری کرنے کے لیے وزارت خزانہ کی منظوری طلب کی۔
فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے رقم جاری کرنے کے لیے حکومت کی منظوری درکار ہوتی ہے جب کہ حکومت کو اس کے اجرا کے لیے قومی اسمبلی کی منظوری لینی ہوتی ہے۔
لیکن اسی روز قومی اسمبلی نے دونوں صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو ضمنی گرانٹ کے طور پر 21 ارب روپے فراہم کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔
اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جگہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ضمنی گرانٹ کی موشن ایوان میں پیش کی جس پر ووٹنگ کے دوران اسے مسترد کردیا گیا۔