• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

’نگران حکومت کی جگہ ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی کیلئے سپریم کورٹ جائیں گے‘

شائع April 16, 2023
فواد چوہدری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے انکشاف پر کمیشن بنا کر تحقیقات کی جائیں—فوٹو:ڈان نیوز
فواد چوہدری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے انکشاف پر کمیشن بنا کر تحقیقات کی جائیں—فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ نگراں حکومت کی مدت میں توسیع نہیں ہوسکتی، پنجاب میں 23 اپریل سے ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔

لاہور میں سابق وفاقی وزیر حماد اظہر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ہمیں آئین سازی سے روکا جا رہا ہے، ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ آئین میں تبدیلی کیسے ہوتی ہے اور قرارداد کی کیا حیثیت ہے، قرار داد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف جس طرح سے دھڑا دھڑ قراردادیں پاس کی جا رہی ہیں، اس سے صرف ردی میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے علاوہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر قابل عمل ہے، وکلا، عوام اور سیاسی قیادت سپریم کورٹ کے فیصلوں کے ساتھ کھڑی ہے اوران فیصلوں پر عمل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کل اسٹیٹ بینک سے پیسے ٹرانسفر ہونے ہیں، ہمیں امید ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک وعدے کے مطابق پیسے ٹرانسفر کریں گے اور پنجاب میں شیڈول کے مطابق انتخابات ہوں گے، یہ بہت اہم ہے، اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو پھر سپریم کورٹ ہی نہیں بلکہ عدلیہ بطور ادارہ غیر فعال ہوجائے گا، ابھی بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک منظم مہم کے ذریعے عدلیہ کو غیر متعلقہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ اسلام آباد میں لوکل باڈیز الیکشن کرائے جائیں، اس پر عمل نہیں ہوا، اس کے بعد حسان نیازی، علی امین گنڈاپور کو ضمانت کے باجود گرفتار کیا گیا، حکم دیا گیا کہ علی امین کو اسلام آباد سے باہر نہیں لے کر جایا جائے، انہیں بھکر لے گئے، عدالتی فیصلوں کو سوچ سمجھ کر، منظم طریقے سے غیر متعلقہ کیا جا رہا ہے، مرضی کا فیصلہ ہوگا تو عمل درآمد کریں گے، مرضی کا فیصلہ نہیں ہوگا تو عمل در آمد نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح سے پوری جوڈیشری بیٹھ جائے گی، اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل در آمد نہیں ہوگا، ایک غیر معروف شخص سپریم کورٹ کے 8 ججز کے اوپر ریفرنس فائل کرتا ہے اور اس کو پیمرا کی ہدایت پر ہیڈلائنز میں جگہ دی جاتی ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ سوشل میڈیا پر پی ٹٰی اے اور مین اسٹریم میڈیا پر پیمرا عدلیہ مخالف مہم کی قیادت کر رہا ہے، میری چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ آپ نے کل جو پریس ریلیز جاری ہے، یہ عدلیہ کا کام نہیں ہے، آپ اپنے فیصلوں سے بولیں، جنہوں نے یہ ٹوئٹ کی، یہ بات سوشل میڈیا پر کی کہ ججز کا جھگڑا ہوگیا، ہاتھا پائی ہوگئی، ان کو بلائیں، وہ نمبر نکلوائیں کہ کن نمبروں سے یہ خبر فیڈ کرائی گئی، کن نمبروں سے عدلیہ کے خلاف یہ پروپیگنڈا فیڈ کیا جا رہا ہے، کون یہ خبریں فیڈ کر رہا تھا اور کون اس مہم کے پیچھے تھا، ان دو سوالوں کے جواب ڈھونڈلیں تو پتا چل جائے گا کہ کون اس مہم کے پیچھے ہے۔

انہوں نے کہا کہ کل وفاقی وزیر مذہبی امور کی حادثے میں موت ہوئی، ابھی ان کا جنازہ نہیں ہوا تھا کہ لابنگ شروع ہوگئی کہ کون ان کی جگہ وزیر بنے گا، یہ زندگی ایسی ہی ہے، اگر اپنے قدموں پر آپ کھڑے ہوں گے، دلیرانہ باتیں اور فیصلے کریں گے تو قوم یاد رکھے گی، ورنہ آج مرے، کل دوسرا دن، کسی کو یاد بھی نہیں ہوگا، قوم آپ کے بڑوں فیصلوں کی منتظر ہے، قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ منظم طریقے سے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اٹھایا جا رہا ہے، علی زیدی، علی امین گنڈاپور کو اٹھالیا گیا، پی ٹی آئی کا ہر شخص اس وقت کسی نہ کسی مقدمے میں ملوث ہے، 2 ہفتے میں 31 سو لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا، پاکستان میں بنیادی حقوق کو چیف جسٹس پاکستان نے تحفظ دینا ہے، اس بے شرم حکومت کا تو آئین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، پوری قوم اس وقت چیف جسٹس کو دیکھ رہی ہے، آپ کے دلیرانہ فیصلے پاکستان کے مستقبل کو لکھیں گے، اگر دلیرانہ فیصلے کریں تو قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی، تاریخ بھی بدلی جائے گی، اگر آپ مصلحت کے اوپر آگئے تو پھر لوگ آتے ہیں، چلے جاتے ہیں، مجھے امید ہے آپ دلیرانہ فیصلیں گے۔

فواد چوہدری نے کہا میں نے صدر مملکت کو خط لکھا ہے اور ان سے دو معاملات پر مداخلت کی اپیل کی ہے، ایک معاملہ الیکشن کمیشن پاکستان اور ان کی ایکسٹینشن یعنی نگران حکومتیں، وہ دوصوبوں میں اپنے بنیادی کام یعنی 90 روز میں الیکشن کرانے میں ناکام ہوگئیں، اس لیے اس پر آپ چیف الیکشن کمشنر سے رپورٹ طلب کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ نگران حکومتیں 90 روز کے لیے مقرر کی جاتی ہیں، 22 اپریل کو پنجاب کی نگران حکومت کی مدت ختم ہوجائے گی، اس کے بعد آئین خاموش ہے کہ صوبے پر کون حکومت کرے گا، خیبر پختونخوا کی حکومت اس کے ایک ہفتے بعد ختم ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجا جائے، کیونکہ ابھی جو فیصلہ آیا ہےاس کے مطابق صرف سپریم کورٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ الیکشن کو آگے بڑھاسکے، الیکشن کی ازخود توسیع آئین میں نہیں ہے، لہذا سپریم کورٹ نگران حکومتوں کو گھر بھیجے اور ایڈمنسٹریٹر مقرر کرے جو 22 اپریل کے بعد معاملات کو سنبھالے اور الیکشن کے پروسس کو ریگولیٹ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر صدر یہ ریفرنس بھیج دیتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ ہم سپریم کورٹ جا ر ہے ہیں جہاں ہم استدعا کریں گے کہ 23 اپریل سے پنجاب کو ایڈمنسٹریٹر کے حوالے کیا جائے، نگران حکومت کو گھر بھیج دیا جائے، کیونکہ وہ اپنی مدت کے بعد غیر آئینی ہوجائے گی۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کل سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے انکشاف کیا ان کے دھرنے کے دوران جنرل (ر) باجوہ، جنرل (ر) فیض حمید نے ان سے وعدہ کیا وہ عمران خان کا تختہ الٹ دیں گے، میں سمجھتا ہوں اس پر تحقیقات کی ضرورت ہے، اس پر فارمل کمیشن بننا چاہیے اور پتا چلنا چاہیے اس میں کون کون ملوث تھا، کس نے ان کو یقین دہانی کروائی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے گورنر نے کہا پلوامہ کا واقعہ ہندوستان کی وزارت داخلہ کی غلط پالیسی کی وجہ سے ہوا اور اس کے نریندر مودی، اجیت دوول نے کہا اس کا بلیم پاکستان پر شفٹ کیا جائے گا، مجھے نہیں پتا موجودہ حکومت کی مودی، اجیت دوول سے اتنی محبت کیا ہے جو یہ اس انکشاف کے بعد بھی دو دن سے خاموش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب میں نے اس ایشو کے بعد کشمیر پر تقریر کی تو بھارت کے میڈیا پر بہت شور مچا، انہوں نے کہا ہم انٹرپول سے رابطہ کر رہے کہ پاکستانی منسٹر ہمارے حوالے کیا جائے، میں بڑا حیران ہوں کہ پاکستان، پاک فوج جو ونڈیکیٹ ہوئی اس پر پاکستان کا فارن آفس، انفارمیشن منسٹری، آئی ایس پی آر خاموش کیوں ہے۔

اس موقع پر سابق وزیر وفاقی حماد اظہر نے کہا کہ کل پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے فی لیٹر مزید اضافہ کیا گیا، عمران خان کی حکومت کے وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 117 ڈالر تھی اور ملک میں تیل کی قیمت 145 سے 150 روپے تھی، اس وقت ٹوٹل سبسڈی 10 روپے تھی، آج 70 سے 75 ڈالر کے حساب سے کارگوز موصول ہو رہے ہیں اور پمپس پر قیمت 282 روپے فی لیٹر مقرر کردی گئی ہے، اس کی وجہ ناقص حکمرانی کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی قدر 100 روپے سے زیادہ گرچکی ہے، آج 75 ڈالر کا تیل 117 ڈالر کے تیل سے بھی مہنگا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج اگر ملک ڈیفالٹ نہیں کیا تو اس کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ڈیفالٹ کے بعد جو صورتحال پیدا ہونی تھی، وہ ڈیفالٹ سے پہلے پیدا کرکے ڈیفالٹ کو زبردستی روکا جا رہا ہے، ڈیفالٹ کے بعد ایل سیز نہیں کھلتیں، وہ چیز پہلے ہی نافذ العمل ہوچکی ہے، اس وقت تک 40 لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں اور ہرہفتے مزید لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ یہ حکومت آئی نہیں تھی، اس کو لایا گیا تھا، اب یہ حکومت چل بھی نہیں رہی، اس کو چلایا جا رہا ہے، اس ٹولے کو بیساکھوں کے ذریعے کھڑا کرنا کوئی حب الوطنی نہیں ہے، چند لوگوں کی ضد اور دو گھروں کے سرمائے اور اقتدار کی خاطر عوام پر مزید بوجھ ڈالا جائے، 6 فیصد پر بڑھنے والی معیشت اب منفی گروتھ میں جا رہے ہیں، یہ بہت سنگین بات ہے، جنگوں کے دوران بھی اس طرح سے ہم منفی گروتھ میں نہیں گئے، ان گیارہ ماہ کے دوران صرف رجیم چینج کے ملک پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی، معیشت منفی گروتھ میں جا رہی ہے ، کاروبار بند پڑے ہیں، لوکھوں لوگ بے روزگار ہیں، اس طرح سے معاملات زیادہ دیر نہیں چلائے جا سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ بحران سے بچا جا سکتا تھا، اس بحران کی واحد وجہ رجیم چینج آپریشن تھا، انہوں نے کہا مارچ میں 70 ارب روپے پی ڈی ایم کے پارلیمنٹرینز کو جاری کیا گیا، اس میں آدھا پیسا تو کرپشن کے تحت ان کی اپنی جیبوں میں چلا جائے گا جن چوروں کو ہم پر مسلط کیا گیا ہے، مالی سال کے دوران 20 ہزار ارب روپے وفاقی اور صوبائی حکومتیں خرچ کریں گی اور ان کے پاس آئین کی پاسداری اور جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لیے نہین ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال ہمارا خسارہ 6 ہزار ارب ہوگا، ایف بی آر 7 ہزار ارب سے زیادہ ٹیکس جمع کرے گا، الیکشن کمیشن کے فنڈز چارج ایکسپنڈیچر میں آتا ہے جس پر ایوان میں ووٹنگ نہیں ہوتی، 20 ارب روپے کا ہمیں مزاق نہیں سنائیں، قوم کو پتا ہے کہ 20 ہزار ارب میں سے 20 ارب دینا کتنا آسان ہے، اس میں مسئلہ نہیں ہے لیکن جمہوریت کو منجمد کرنے اور آئین شکنی کے لیے یہ بچکانہ بہانے بنائے جا رہے ہیں، ان کو لایا گیا، ان کو 12 مہینے چلا گیا، مگر اب انہیں مزید چلا نہیں جاسکتا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024