وکلا کانفرنس: پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عدالتی حکم پر الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ
وکلا کی لاہور میں منعقدہ گول میز کانفرنس نے پارلیمنٹ کی بالادستی سے متعلق اراکین قومی اسمبلی کے دیرینہ استدلال پر سوال اٹھاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ درحقیقت آئین ہی سب سے مقدم ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’پاکستان میں آئین کا تقدس اور عدالتی آزادی‘ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں بیرسٹر اعتزاز احسن، حامد خان، سردار لطیف کھوسہ، خواجہ طارق رحیم، عابد زبیری، ربیعہ باجوہ، سلمان اکرم راجا اور انور منصور خان شامل تھے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف سمیت کوئی بھی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی توہین عدالت کے زمرے میں آئے گی۔
اعتزاز احسن، سردار لطیف کھوسہ اور خواجہ طارق رحیم نے اس کانفرنس کی میزبانی کی جس میں حامد خان کی قیادت میں پروفیشنل گروپ اور پی ٹی آئی کے انصاف لائرز فورم سے تعلق رکھنے والے وکلا نے شرکت کی۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ اس وقت بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا دونوں صوبوں میں انتخابات 90 دن کی آئینی ٹائم لائن کے اندر کرائے جائیں یا نہیں، بینچوں کی تشکیل پر بحث اور انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کا حکم اکثریت یا اقلیت میں ہونے پر بحث کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
حامد خان نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہر کوئی آئین کی اپنی تشریح کر رہا ہے، جو لوگ ملک میں مشترکہ عام انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ غلط تشریح کررہے ہیں کیونکہ آئین میں ایسا نہیں لکھا، تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں، وکلا کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ آئین اور عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہوں۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’میں نے آئین اور ملک کے ساتھ کھڑے رہنے کو ترجیح دی‘، واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پیپلزپارٹی نے مخلوط حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کے بعد انہیں پارٹی کے لیگل ونگ کے صدر کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے زور دیا کہ تمام ادارے آئین کے ماتحت ہیں، اگر حکومت انتخابات میں تاخیر کرنا چاہتی ہے تو اسے آئینی ترمیم لانی چاہیے، آئین کسی ایسی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا جو سپریم کورٹ کے اختیارات کو ختم کرے۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر ربیعہ باجوہ نے کہا کہ سیاستدان یہ کہنا چھوڑ دیں کہ پارلیمنٹ مقدم ہے، حقیقت میں آئین ہی مقدم ہے، جب پارلیمنٹ نے آرمی چیف کو توسیع دی اور فوجی عدالتوں کے قیام کی توثیق کی تو اس کی بالادستی کہاں تھی؟ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کا انعقاد آئینی مینڈیٹ ہے اور سیاسی جماعتوں کو اس کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔
سینیئر وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ آزاد اور متحد عدلیہ کے بغیر آئین کا تقدس ممکن نہیں، عام انتخابات کے لیے 90 دن کی ٹائم لائن کی خلاف ورزی دراصل آئین کی خلاف ورزی ہے۔
سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے سینیئر وکلا پر زور دیا کہ وہ ججز کے درمیان اتحاد کے لیے اپنا کردار ادا کریں، آئین کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ریاست کو منتخب نمائندوں نے چلانا ہے، تاہم اسی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ آئین پر لازمی عمل کرنا ہوگا، یہ غلط تصور ہے کہ پارلیمنٹ واحد سپریم ادارہ ہے۔
پریس کانفرنس کے میزبانوں کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات آئین کے حکم کے مطابق ایک ساتھ ہونے چاہیے جوکہ سپریم کورٹ کے حکم میں واضح ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے اندرونی مسائل کا فیصلہ جج خود کریں گے، عدالت یا اس کے عمل کو منظم کرنے کے لیے کسی بھی قانون سازی کو عدالت، اس کی آزادی اور اختیار کو تباہ کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وکلا برادری کو تقسیم کرنے کی سازش کامیاب نہیں ہوگی۔