حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان تناؤ نے وکلا برادری میں بھی تقسیم پیدا کردی
حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان جاری کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے آئینی بحران نے بظاہر وکلا برادری میں بھی تقسیم پیدا کردی، اس معاملے پر متضاد مؤقف اپنانے والی وکلا کی 2 سرکردہ تنظیموں میں سے کچھ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی حمایت کھڑے ہیں جبکہ دیگر ان کی برطرفی کے خواہاں ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک بیان میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر عابد ایس زبیری اور سیکریٹری مقتدر اختر شبیر نے اعلان کیا کہ ’یہ ایسوسی ایشن قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور چیف جسٹس کی زیرسربراہی سپریم کورٹ کے وقار کے ساتھ کھڑی ہے‘۔
تاہم اس کے فوری بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان کی اکثریت کی طرف سے جاری ہونے والے متضاد پیغام میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ دونوں عہدیداران آئین کی بالادستی کے لیے کام کرنے کے بجائے ایک سیاسی جماعت کے ترجمان کی طرح کام کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں خیبرپختونخوا بار کونسل کے وائس چیئرمین زربادشاہ خان نے پشاور سے جاری ہونے والے ایک بیان میں چیف جسٹس کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
عابد ایس زبیری اور مقتدر اختر شبیر نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے چیف جسٹس کے خلاف دائر ریفرنس کو صریحاً غیر قانونی اور آئین کو توڑنے کی ایک اور کوشش قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اراکین سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں جو کہ حتمی ہے اور اسے قومی اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے مسترد یا روکا نہیں جا سکتا ہے۔
لیکن ان دونوں افراد کی جانب سے بیان جاری ہونے کے چند گھنٹوں بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے 10 ارکان (جس میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے نائب صدور اور ملک کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے اراکین شامل ہیں) سے منسوب ایک علیحدہ بیان جاری ہوا جس میں صدر اور سیکریٹری کے بیان سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے کہا گیا کہ مذکورہ بیان جاری کیے جانے سے قبل ایگزیکٹو کمیٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ’انہوں نے نہ صرف سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان تفریق کو گہرا کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی ہے‘۔
بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ چیف جسٹس تمام اختلافات کو ختم کرنے کے لیے فوری طور پر فل کورٹ میٹنگ بلائیں اور تمام اختلافی فیصلوں کو درست کرنے کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دیں۔
دوسری جانب چیف جسٹس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئےخیبرپختونخوا بار کونسل نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف الیکشن کیس میں عدالتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر ریفرنس دائر کیا جائے۔
زربادشاہ خان نے 12 اپریل کو عدلیہ کی آزادی کے لیے وکلا کا نمائندہ اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا، انہوں نے مزید کہا کہ اجلاس میں صوبے بھر سے بار ایسوسی ایشنز کے عہدیداران کو مدعو کیا جائے گا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے نے واضح طور پر ثابت کیا ہے کہ سوموٹو کیس عدالت نے چار تین کی اکثریت سے مسترد کر دیا تھا لیکن چیف جسٹس نے مبینہ طور پر غلط بیانی کی اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ انہوں نے جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف سپریمجوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا لیکن چیف جسٹس اس پر کارروائی کرنے کے بجائے انہیں اپنی پسند کے اہم بینچوں کا حصہ بناتے رہے۔