• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

زمان پارک آپریشن: عدالت کی پی ٹی آئی رہنماؤں کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت

شائع April 7, 2023
18 مارچ کو زمان ٹاؤن میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پولیس اور کارکنان میں تصادم ہوا تھا—فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
18 مارچ کو زمان ٹاؤن میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پولیس اور کارکنان میں تصادم ہوا تھا—فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر رہنماؤں کو پی ٹی آئی کے حامیوں اور پنجاب پولیس کے درمیان 18 مارچ کو زمان پارک میں ہونے والے تصادم کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کردی۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج عبہر گل نے پی ٹی آئی رہنماؤں اسد عمر، یاسمین راشد، زبیر نیازی، حسن نیازی، مسرت چیمہ اور میاں جاوید اسلم اقبال کی جانب سے سرکاری افسران کے ساتھ بدتمیزی اورزمان پارک کے باہر نقصان پہنچانے کے مقدمے میں عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست کی سماعت کی۔

عدالت میں سماعت کے دوران میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر جے آئی ٹی کے سربراہ ایس ایس پی عمران کشور نے عدالت کو بتایا کہ صرف اسد عمر نے تفتیشی عمل میں شمولیت اختیار کی اور ’ان کے علاوہ کسی اور نے ایسا نہیں کیا‘۔

عدالت نے ملزمان کو آج تفتیش میں شامل ہونے کی ہدایت کی، اس پر ایس ایس پی عمران کشور نے کہا کہ ’تمام مشتبہ لوگ ہمارے دفتر آکر تفتیش میں شامل ہوسکتے ہیں۔‘

بیرسٹر صفدر نے کہا کہ تمام افراد عدالت میں بھی تفتیش میں شامل ہو سکتے ہیں۔

تاہم عدالت نے ایس ایس پی کشور کو ملزمان کے بیانات ریکارڈ کرنے کی ہدایت کی اور سماعت صبح 10 بجے تک ملتوی کر دی۔

سماعت دوبارہ شروع ہونے پر ایس ایس پی کشور نے عدالت کو بتایا کہ تمام مشتبہ افراد نے اپنے بیانات قلمبند کرا لیے ہیں اور گواہوں کی موجودگی میں ان سے پوچھ گچھ کی ضرورت ہے۔

بعدازاں عدالت نے ملزمان کو آج دوپہر 2:30 بجے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے ان کی عبوری ضمانت میں 27 اپریل تک توسیع کردی۔

اس موقع پر سماعت کے دوران یاسمین راشد نے کہا کہ الیکشن سے متعلق مصروفیات ہیں، برائے مہربانی (اگلی سماعت کے لیے) مناسب تاریخ دے دیں۔

تاہم جج نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’انتخابات اور یہ ساتھ ساتھ چلنا ہے‘۔

یاد رہے کہ 18 مارچ کو جب پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اسلام آباد میں جج کے سامنے پیش ہونے کے لیے لاہور میں واقع اپنی رہائش گاہ زمان پارک سے نکلے تو پولیس کی بھاری نفری نے ان کے گھر پر سرچ آپریشن شروع کیا تھا جس کے بعد ان کی پارٹی کے حامیوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

اس سے قبل 29 مارچ کو، لاہور اے ٹی سی نے زمان پارک کے باہر پولیس پارٹیوں پر پیٹرول بم اور پتھروں سے حملہ کرنے کے ایک اور کیس میں پی ٹی آئی رہنماؤں عمر اور فرخ حبیب کی عبوری ضمانت منسوخ کر دی تھی کیونکہ وہ پیش نہیں ہوئے تھے۔

زمان پارک پولیس آپریشن

17 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے انسپکٹر جنرل ڈاکٹر عثمان انور کو پولیس ٹیموں پر حملوں کی تحقیقات کے لیے عمران کے زمان پارک کی رہائش گاہ کی تلاشی لینے کی اجازت دی تھی یہ حملے اس وقت ہوئے تھے جب وہ اسلام آباد کی ایک عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں عمران کی گرفتاری کے لیے جاری کیے گئے وارنٹ پر عملدرآمد کے لیے وہاں گئے تھے۔

اگلے روز توشہ خانہ کیس کی سماعت میں شرکت کے لیے پی ٹی آئی چیئرمین کے اسلام آباد روانہ ہونے کے فوراً بعد پنجاب پولیس نے عمران کی زمان پارک رہائش گاہ میں گھسنے کے لیے تعمیراتی مشینری کا استعمال کیا تھا، جب کہ ان کی اہلیہ اور بہن اندر موجود تھیں۔

سابق وزیر اعظم کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ خانم نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس کی ’ہنگامہ خیزی‘ کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس نے بغیر وارنٹ کے آپریشن کیا اور مبینہ طور پر خواتین کو ہراساں کیا اور نوکروں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

پی ٹی آئی کی قیادت نے عمران کے گھر پر شروع کی گئی ’ریاستی دہشت گردی‘ کی بھی شدید مذمت کی تھی جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز کے طے کردہ عمران کو گرفتار کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

اسی روز پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ڈاکٹر عثمان انور نے کہا تھا کہ پولیس کے چھاپے کے دوران لاہور میں عمران کے زمان پارک کی رہائش گاہ سے ’گولہ بارود‘ بشمول پیٹرول بم، برآمد کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پولیس نے ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جو پولیس پر ’غلیلیں چلانے اور پتھراؤ کرنے‘ میں ملوث تھے اور ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔

پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات عامر میر نے بھی کہا تھا کہ ’’فساد پھیلانے والے عناصر‘ کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے کیونکہ انہوں نے املاک کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024