• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سپریم کورٹ فل کورٹ بنا دے، جو بھی فیصلہ ہو گا ہمیں قبول ہو گا، وزیراعظم

شائع April 6, 2023
وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد میں وکلا کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم شہباز شریف اسلام آباد میں وکلا کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے دیے گئے فیصلے پر نظرثانی کرے اور فل کورٹ بنادیں، فل کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہو گا ہمیں قبول ہو گا۔

اسلام آباد میں وکلا کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ میرے لیے یہ خوشی کا موقع ہے کہ یہاں آج لائرز کمپلیکس کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس کے لیے 1.8ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، کاش اس رقم کا یہاں اعلان نہ کیا جاتا کیونکہ مجھے ڈر یہ ہے کہ حکم نہ آجائے یہ الیکشن کمیشن کے حوالے کردیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ وکلا سے زیادہ آئین و قانون کے لیے کسی نے بھی جدوجہد نہیں کی، آپ نے عدلیہ کی بحالی کجے لیے ڈنڈے اور گولیاں کھائیں، دن رات پاکستان بھر میں جلوس اور ریلیاں نکالیں لیکن میں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں تو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وزیراعظم اکیلا کچھ نہیں کابینہ ہے تو جنہوں نے یہ حکم دیا انہوں نے یہ اپنے اوپر آج تک کیوں لاگو نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مولوی تمیز الدین کیس آپ سے زیادہ کون جانتا ہو گا کہ کس طرح کراچی میں ہائی کورٹ میں ان کے حق میں فیصلہ ہوا اور پھر جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کیا جس نے پاکستان کو کہاں پہنچا دیا، عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کا ہم سب کو احترام کرنا چاہیے، ججز کا احترام کرنا چاہیے لیکن جو قانون وہ دوسروں کے لیے بنائیں، اسے خود اپنے اوپر بھی لاگو کریں۔

شہباز شریف نے کہا کہ 9 رکنی بینچ بنا اور آخر وہ تین بینچ کا رہ گیا، دو نے معذرت کر لی، تین رکنی بینچ میں سے بھی ایک جج نے معذرت کی ہوئی تھی، 3-4 کی ایک بحث چل رہی ہے اور جنہوں نے معذرت کی تھی انہیں خود اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے تھا، اگر فل کورٹ کا مطالبہ مان لیا جاتا تو پاکستان میں کون اس فیصلے سے اختلاف کرتا۔

ان کا کہنا تھا کہ تین بینچ کا ایک فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بھی آیا ، اس کو پہلے سرکلر کے ذریعے ختم کیا گیا، بعد میں پھر چھ رکنی لارجر بینچ بنایا گیا، اگر سرکلر کے ذریعے ختم ہونا تھا تو لارجر بینچ بنانے کی ضرورت کیا تھی۔

انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی پارٹی الیکشن سے بھاگ نہیں سکتی، اسی دن اس کی سیاست دفن ہو جائے گی، 63-اے کے قانون کو کس طرح سے ری رائٹ کیا گیا اور ہم نے اپیل دائر کی ہوئی ہے اس کا کچھ اتا پتا نہیں ہے، اسی فیصلے میں سیاسی جماعتوں نے بار بار استدعا کی کہ فریق بنایا جائے لیکن کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آج وقت آ گیا ہے کہ ہم سب اسٹیک ہولڈر کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا اور ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں پاکستان کے مستقبل اور آئندہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے یا خدانخواستہ ذاتی پسند ناپسند کی لڑائیاں لڑ کر اس ملک کو ایسی جگہ پہنچانا جس سے واپسی ناممکن ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی عدالت عظمیٰ سے کہیں گے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کریں، فل کورٹ بنا دیں، جن ججوں نے معذرت کی تھی وہ نہ بیٹھیں، جو فیصلہ ہو گا ہم اس کو قبول کریں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں پاکستان کا مستقبل بچانا ہے، ہمیں بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور ان کا سامنا اکیلا میں یا میری حکومت نہیں کر سکتی، سب کو مل کر کرنا ہو گا، تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر اپنا حصہ ڈالنا ہو گا، ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اور وہ فیصلہ کریں جو پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024