معاشی محاذ پر شہباز حکومت کا ایک سال
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ مکمل ہونے کو تھا اور میں گھر والوں کے ساتھ افطار کے لیے دسترخوان پر بیٹھا تھا اور سوچ رہا تھا کہ موجودہ حکمران اتحاد کے ایک سال مکمل ہوچکے ہیں اس دوران معاشی کارکردگی پر ایک جائزہ تحریر کروں۔ سامنے لگے ٹی وی کی اسکرین پر چلنے والی خبرپر نظر پڑی کہ کراچی میں راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچی جس میں 11 افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے جبکہ متعدد زخمیوں کی حالت نازک ہے اور ہلاکتوں کے بڑھنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
اتنے میں اذان ہوگئی اور بھاری دل کے ساتھ بمشکل روزہ افطار کیا۔ موجودہ حکومت کے پہلے سال میں مہنگائی کے طوفان نے عوام کی کمر دوہری کردی ہے۔ بطور وزیر اعلیٰ اپنے کام سے مشہور ہونے والے شہباز شریف عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں۔
میری نظروں میں غربت کے مناظر گھومنے لگے۔ ہم تو پھل فروٹ، مرغی اور گوشت کی مہنگائی کا رونا رو رہے تھے کہ چند دن قبل آٹے کا تھیلا خریدا تو میرے بھی ہوش اڑگئے۔ چکی کے آٹے کا 10 کلو گرام کا تھیلا جو ایک سال قبل تقریباً 11 سو روپے میں دستیاب تھا اب وہ 17 سو روپے سے تجاوز کرچکا تھا۔ جبکہ سال 2018ء میں یہی تھیلا 400 سے 410 روپے میں خریدا جارہا تھا۔ یعنی گزشتہ چار ساڑھے چار سال میں آٹے کی قیمت چار گنا بڑھ چکی ہے۔
ہوش رُبا مہنگائی
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں مجموعی قیمتوں میں اضافے کی شرح 35.3 فیصد، دیہی علاقوں میں غذائی اجناس کی مہنگائی 50 فیصد، شہروں میں مہنگائی 18.6 فیصد اور دیہی علاقوں میں 23.1 فیصد ہوگئی ہے۔ یعنی گزشتہ 5 سال میں عام استعمال کی اشیا کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں جبکہ غذائی اجناس کی قیمتیں گزشتہ ساڑھے 3 سال میں دگنی ہوگئی ہیں۔ مارچ کے دوران ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 45 سے 41 فیصد رہی ہے۔
اس قدر مہنگائی کے باوجود یہ سوال تو لوگوں کے ذہنوں میں ہے کہ کیا اس مہنگائی میں کمی ہونے والی ہے؟ حکومت کا اس بارے میں کہنا ہےکہ ملک میں مہنگائی کا طوفان فوری طور پر تھمنے والا نہیں ہے۔
وزارت خزانہ نے ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ اینڈ آؤٹ لک میں آنے والے مہنیوں میں مہنگائی میں مزید اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔ وزارت کے جاری تجزیے کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ، پیٹرول اور گیس کی قیمت بڑھانے کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود میں اضافے کے رجحان اور روپے کی قدر میں کمی کی وجوہات شامل ہیں۔
ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ اینڈ آؤٹ لک میں کہا گیا کہ ’دوسرے مرحلے کے اثر کے نتیجے میں افراط زر میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور سیاسی اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال افراط زر بڑھنے کے خدشات میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔
روپے کی گرتی قدر
ملک میں جاری مہنگائی کی موجودہ لہر میں دیگر عوامل کے علاوہ روپے کی قدر میں تیزی سے ہونے والی کمی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ گزشتہ 5 سال کا جائزہ لیا جائے تو روپے کی قدر میں بہت تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت جب 2018ء میں ختم ہوئی تو روپے کی قدر 123 روپے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ عمران خان کے ساڑھے تین سال کے دور میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہوئی اور عمران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ عمران خان کے دور اقتدار کے خاتمے کے وقت ایک ڈالر 186 روپے کا ہوگیا تھا۔ یعنی پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ڈالر 63 روپے کے لگ بھگ مہنگا ہوا۔
حکومت کی تبدیلی کے بعد ڈالر کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ انٹر بینک میں ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اور چار اپریل 2023ء کو ڈالر 3 روپے 46 پیسے اضافے کے بعد 288 روپے 50 پیسے ہوگیا جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 4 روپے بڑھ کر 291 روپے کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے وزیر خزانہ بننے کے بعد سے اب تک ڈالر 58 روپے 37 پیسے جبکہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد اب تک 105 روپے 50 پیسے مہنگا ہوچکا ہے۔
یہی وہ بنیادی چیز ہے جس نے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں معاشی سرگرمی کے لیے ایندھن درآمد کیا جاتا ہے اور جب روپے کی قدر تیزی سے کم ہوتی ہے تو ہر چیز مہنگی ہوتی چلی جاتی ہے۔
ملکی تاریخ کی بلند ترین شرح سود
جب کسی ملک میں مہنگائی ہو تو وہاں کثرت زر کا معاملہ ہوتا ہے یا پھر اشیا اور اجناس کی قلت بھی مہنگائی کو فروغ دیتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کا بنیادی کام معیشت میں قیمتوں کو مستحکم رکھنا ہوتا ہے اور وہ اس کو سرانجام دینے کے لیے مانیٹری پالیسی کا سہارا لیتا ہے۔ اگر معیشت میں مہنگائی بڑھ رہی تو وہ شرح سود بڑھا کر زر کی طلب کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان میں چونکہ مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس وجہ سے اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔
عمران خان کے دورِ حکومت میں بھی بنیادی شرح سود دو ہندسوں میں رہی تھی۔ جبکہ حکومت کے خاتمے سے چند روز قبل یعنی 7 اپریل کو جاری ہونے والی مانیٹری پالیسی میں بھی شرح سود کو 2.5 فیصد بڑھا کر 12.25 فیصد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بنیادی شرح سود میں مسلسل اضافے کا عمل جاری ہے۔ رواں سال 4 اپریل کو ہونے والے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس میں بنیادی شرح سود ایک فیصد بڑھا کر 21 فیصد کردی گئی ہے جو کہ ملکی تاریخ کی بلند ترین شرح سود ہے۔ موجودہ حکومت کے قیام سے اب تک بنیادی شرح سود میں 8.75 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
زرِمبادلہ کی کمی اور قرضوں کی ادائیگی
روپے کی قدر میں کمی کی بڑی وجہ زرمبادلہ ذخائر میں تیزی سے کمی ہے۔ ایک سال قبل جب عمران خان کی حکومت ختم ہوئی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحادی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ملک کے مجموعی زرمبادلہ ذخائر 16 ارب 42 کروڑ ڈالر کی سطح پر تھے۔ جس میں سے اسٹیٹ بینک کے پاس 10 ارب 49 کروڑ ڈالر موجود تھے۔ مگر بیرونی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا رہا اور زرمبادلہ ذخائر تیزی سے گرتے ہوئے فروری 2023ء میں 8 ارب 73 کروڑ ڈالر رہ گئے جس میں سے اسٹیٹ بینک کے پاس 3 ارب 85 کروڑ ڈالر جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس 4 ارب 88 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے۔ چین اور دوست ملکوں کی جانب سے ملنے والی معاونت کی وجہ سے زرمبادلہ ذخائر میں معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مارچ کے وسط میں زرمبادلہ ذخائر 10 ارب 13 کروڑ ڈالر ہوگئے۔
پاکستان نے گزشتہ 30 سال سے قرض لے کر قرض اتارنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے جس سے مجموعی بیرونی اور اندرونی قرض میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے قرض میں گزشتہ 7 برسوں میں دگنا اضافہ ہوا ہے، جس میں 15ء-2014ء میں جی ڈی پی کے 24 فیصد یعنی 65 ارب ڈالر سے 22ء-2021ء میں جی ڈی پی کے 40 فیصد یعنی 130 ارب ڈالر تک اضافہ ہوا۔
ڈالر کے مجموعی بیرونی قرضوں میں سے مالیاتی اداروں کا حصہ 42 فیصد ہے اور مختلف ممالک سے قرض تقریباً 38 فیصد ہے۔ ممالک میں سب سے زیادہ چین کا 23 ارب ڈالر حصہ ہے، جس میں چینی بینکوں کے 6.7 ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا قرضہ بھی بہت زیادہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق موجودہ مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ میں پاکستان نے 10 ارب 21 کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کے قرضے واپس کیے ہیں۔ جولائی سے ستمبر کے دوران 3 ارب 44 کروڑ ڈالر جبکہ اکتوبر سے دسمبر کے دوران 6 ارب 76 کروڑ ڈالر کے قرضے واپس کیے ہیں۔ مجموعی واپس کردہ قرضوں میں 8 ارب 27 کروڑ ڈالر کا اصل زر جبکہ 1 ارب 94 کروڑ ڈالر کا سود بھی شامل ہے۔ پاکستان کو اس وقت مالی سال کے اختتام تک بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور کرنٹ اکاونٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے کئی ارب ڈالر درکار ہیں۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں
روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ملک میں ایندھن کی قیمت میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت براہ راست عالمی منڈی سے منسلک ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ حکومت کے لیے ریونیو جمع کرنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ مگر تحریک انصاف کی حکومت نے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل ایندھن کی قیمت کم کردی تھی جس کو واپس کرنے میں نئی حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور عوام تیل پیدا کرنے والے ملکوں سے بھی کم قیمت پر ایندھن خریدتے رہے۔
نیا حکومتی سیٹ اپ بھی پیٹرولیم کی قیمت بڑھانے پر تیار نہ تھا۔ مگر مفتاح اسمٰعیل نے آئی ایم ایف پروگرام کو شروع کرنے کے لیے پیٹرولیم قیمتوں میں اضافے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو راضی کیا اور 27 مئی 2022ء کو پہلی مرتبہ ایندھن کو مہنگا کیا۔
اس کے بعد پیٹرول کی قیمت 149.86 سے بڑھا کر 179.86 روپے کردی گئی یعنی یکمشت 30 روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 144.15 سے بڑھا کر 174.15 روپے کردی گئی تھی۔ اس کے بعد سے ایندھن کی قیمت اضافوں کے بعد 272 روپے ہوگئی ہے۔ اس میں 50 روپے پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی، 6 روپے آئل مارکیٹنگ کمپنی مارجن، 7 روپے ڈیلر مارجن اور 1.84 روپے ان لینڈ فریٹ کی رقم شامل ہے۔
بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ
پیٹرولیم کے علاوہ توانائی کے دیگر ذرائع یعنی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیونکہ بجلی اور گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ ساڑھے 4 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
گیس کے شعبے میں قیمتوں میں کو تیزی سے بڑھایا گیا ہے اور وزیر مملکت برائے توانائی مصدق ملک کا کہنا تھا کہ گیس کے شعبے میں قیمتوں میں اضافے سے گردشی قرض میں اضافے کو صفر کردیا ہے۔
حکومت نے جنوری 2023ء سے مقامی قدرتی گیس کی قیمت 16 فیصد سے 112.32 فیصد تک بڑھادی ہے۔ گھریلو اور دیگر تمام کیٹیگریز کے صارفین سے 310 ارب روپے اضافی وصول کرنا مقصود ہے۔ حکومت نے گھریلو صارفین سے اضافی ریونیو حاصل کرنے کے لیے سلیب سسٹم متعارف کروایا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ محفوظ صارفین سے 50 روپے ماہانہ اور غیر محفوظ صارفین سے 500 روپے ماہانہ کی مقررہ شرح وصول کی جائے گی۔ اس کے علاوہ بجلی کی پیداوار، سیمنٹ، فرٹیلائزر اور دیگر شعبہ جات کے لیے گیس مہنگی کی گئی ہے۔
اسی طرح بجلی کے شعبے میں گردشی قرض کو کم کرنے کے لیے پہلے آئی ایم ایف نے بنیادی یونٹس کی قیمت بڑھائی اورجولائی 2022ء سے اکتوبر 2022ء کے درمیان بجلی کی فی یونٹ قیمت 7 روپے 91 پیسے بڑھا دی۔ اس کے تحت پہلے مرحلے میں جولائی کے بلوں میں 3.50 روپے فی یونٹ ٹیرف میں اضافہ اور اگست ستمبر کے بلوں میں 3.50 روپے کا اضافہ کیا گیا۔ جبکہ اکتوبر میں 91 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ اس اضافے سے رہائشی صارفین کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت 24.28 روپے سے بڑھ کر 32 روپے 73 پیسے ہوگئی۔
اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے فیول چارجز ایڈجسمنٹ میں جو رعایت عارضی طور پر دی تھی اس کو وصول کرنے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف نے سہ ماہی ایڈجسمنٹ کو بھی صارفین سے وصول کرنے کی شرط عائد کی ہے جس کو اب ہر مہینے بلوں میں شامل کیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے فی یونٹ قیمت 40 روپے سے تجاوز کرچکی ہے۔
ان تمام شرائط پر عمل کرنے کے باجود تاحال آئی ایم ایف نے 1.2 ارب ڈالر کا قرض منظور نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ سے معیشت میں ڈالر کی قلت کا سامنا ہے۔ اس قلت کو دور کرنے کے لیے حکومت نے متعدد اقدامات کیے ہیں اور پلانٹ مشینری، گاڑیوں کی سی کے ڈی کٹس اور متعدد درآمدات پر روک لگادی ہے۔ اس روک کی وجہ سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ٹیکسٹائل، آٹو موبائل، کیمیکلز، ادویات سازی، لائٹ انجینیئرنگ اور دیگر صنعتوں میں کام رُک گیا ہے۔ اس پابندی سے صحت کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہے اور وہاں بھی متعدد اہم آلات اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔
صنعتوں کو ہونے والا نقصان
حکومت کی جانب سے ڈالر بچت پالیسی کے تحت صنعتی خام مال کی درآمد میں رکاوٹیں بھی شامل ہیں۔ صنعتوں کے پاس خام مال نہ ہونے کی وجہ سے متعدد صنعتوں میں مکمل کام بند ہوگیا ہے۔ جبکہ بعض میں کام جزوی طور پر متاثر ہوا ہے۔ موبائل فون اسمبلی کی صنعت مکمل طور پر بند ہوگئی ہے۔ یہ صنعت سال 2018ء میں شروع ہوئی تھی اور اس کے 30 کے 30 یونٹس بند ہیں۔ پاکستان میں بنے موبائل کی مارکیٹ افریقی اور کم آمدنی والے ملک ہیں۔ اسی طرح گاڑیوں کی صنعت بھی متاثر ہوئی ہے۔ کئی کمپنیوں کے مکمل یونٹس بند ہوگئے ہیں۔ بعض میں غیر پیداواری دن بڑھا دیے گئے ہیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کی صنعت بھی 50 فیصد بندش کا عندیہ دے رہی ہے۔
صنعتوں کی بندش سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی ہے۔ مگر موجودہ حکومتی سیٹ اپ کے قیام کے بعد جیسے ہی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاشی بحالی کا پروگرام بحال کروایا تھا تو اس کے بعد اسٹاک ایکسچینج میں تیزی دیکھی گئی تھی اور اگست کے مہینے میں زبردست تیزی کے بعد اسٹاک ایکس چینج کا 100 انڈیکس اگست میں 2 ہزار 200 پوائنٹس اضافے کے بعد 42 ہزار 351 پوائنٹس پر بند ہوا۔
اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ کی وجوہات میں ایک تو میکرو اکنامک انڈیکیٹرز کی گراوٹ اور ڈالر کی قلت ہے۔ ساتھ ہی مفتاح اسمٰعیل کے وزیر خزانہ رہتے ہوئے جو بہتری کاروبار اور معیشت میں آئی تھی وہ بھی وزارت خزانہ کی قیادت اسحٰق ڈار کو منتقل کرنے سے برقرار نہ رہ سکی۔ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف گریز پالیسی اپنائی مگر دوست ملکوں نے آئی ایم ایف کے پروگرام کے بغیر پاکستان کی مالی معاونت کرنے سے انکار کردیا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان بروقت آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
دوست ملک خصوصاً چین پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے اقدامات کررہا ہے اور مختلف مدات میں قرضہ فراہم کررہا ہے۔ مگر معیشت کی بحالی کا کوئی جامع پلان نہ تو دوست ملک فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ حکومت کوئی روڈ میپ دے پائی ہے۔
ایک طرف مہنگائی ہے تو دوسری طرف سیلاب سے متاثرہ لاکھوں افراد تاحال کھلے آسمان تلے ہیں۔ ان کی بحالی کا وعدہ بھی عالمی برادری پورا نہیں کررہی ہے۔ اب وزیرخزانہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے بغیر زندہ رہنے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔
پی ڈی ایم حکومت کے قیام اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنے ایک سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ مگر عوام کی زندگی میں بدحالی ختم ہونے یا کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ خدشہ یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور صنعتوں کی بحالی بھی فوری طور پر ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس لیے پی ڈی ایم حکومت کا گزشتہ سال عوام کے لیے بہترنہ تھا اور نہ مستقبل قریب میں کوئی بہتری ہوتی نظر آرہی ہے۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔