• KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm

پی ٹی آئی رہنماؤں، کارکنان کے خلاف مقدمات پر تشکیل جے آئی ٹی کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد

پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے حکومت پنجاب کی جانب سے قائم کی گئی جے آئی ٹی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا—فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ
پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے حکومت پنجاب کی جانب سے قائم کی گئی جے آئی ٹی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا—فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف درج مقدمات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد کردی۔

پی ٹی آئی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے حکومت پنجاب کی جانب سے قائم کی گئی جے آئی ٹی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

مسرت جمشید چیمہ کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پولیس نے عمران خان سمیت رہنماوں کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات درج کیے ہیں، حکومت پنجاب نے غیر قانونی جے آئی ٹی بنا کر نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے، درج مقدمات میں دہشتگردی کی دفعات نہیں لگ سکتی نہ ہی اس کی تحقیقات کے لیے یہ جے آئی ٹی بن سکتی ہے، حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی پولیس رولز کے بھی خلاف ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ جے آئی ٹی کی تشکیل کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے اور جے آئی ٹی کے کنوینر کو طلبی کے نوٹسز جاری کرنے سے بھی روکے۔

جے آئی ٹی کی تشکیل کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ’جے آئی ٹی کی تشکیل غیر قانونی ہے، آئی جی کی زیر نگرانی یہ جے آئی ٹی کام کرے گی وہ بھی اس میں مجوزہ ملزم ہیں، جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے حکومت ہی حکم جاری کر سکتی ہے لیکن اس جے آئی ٹی کی تشکیل حکومت نے نہیں کی اس لیے کالعدم کیا جائے۔

سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے اس معاملے کی شفاف تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی جس میں تمام محکموں کے لوگ ہیں۔

اس دوران پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ عدالت جے آئی ٹی کو کام سے روک دے، جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ ابھی ہم سرکاری وکیل سے صرف تبصرہ مانگ رہے ہیں، حکم امتناع نہیں دے رہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی کو کام سے نہیں روکا تو یہ تو پھر خارج تصور ہو گی، جسٹس طارق سلیم شیخ نے مؤقف اختیار کیا کہ ابھی ہم صرف رپورٹ مانگ رہے ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ایک دن میں عمران خان پر دہشتگردی کے 15 کیس کر دیے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے یہ سوال بھی ہے کہ اگر پولیس نہیں تو تفتیش کون کرے گا۔

جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے کابینہ سے منظوری ہوئی یا نہیں۔

عدالت نے جے آئی ٹی کو فوری کام سے روکنے کی استدعا رد کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب کے وکیل سے جواب طلب کر لیا اور کیس کی مزید سماعت پیر (10 اپریل) تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ نگران حکومت پنجاب نے پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔

محکمہ داخلہ پنجاب نے 6 رکنی جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس کے مطابق ایس ایس پی عمران کشور جے آئی ٹی کے کنوینر مقرر کیے گئے، ایس پی آفتاب پھلروان بھی جے آئی ٹی میں شامل ہیں جب کہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی ) کا ایک ایک نمائندہ بھی جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا۔

نوٹی فکیشن کے مطابق مذکورہ جے آئی ٹی پی ٹی کارکنان کے خلاف لاہور کے مختلف تھانوں میں درج مقدمات کی تحقیقات کرے گی، ان مقدمات میں دہشت گردی سمیت توڑ پھوڑ اور کار سرکار میں مداخلت کی دفعات شامل ہیں۔

خاتون جج دھمکی کیس میں وارنٹ تبدیلی کے حکم کا تحریری فیصلہ جاری

دریں اثنا عدالت نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں ناقابل ضمانت وارنٹ کو قابل ضمانت میں تبدیل کرنے کے حکم کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج سکندر خان نے خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں ناقابل ضمانت وارنٹ کو قابل ضمانت میں تبدیل کرنےکا 2 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کالعدم قرار دیے جاتے ہیں، ٹرائل کورٹ عمران خان کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کرے۔

عمران خان کی حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ برقراررکھتے ہوئے تحریری فیصلے میں واضح کیا گیا کہ ’استثنیٰ کی درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ قانون کے عین مطابق ہے لہٰذا اسے برقرار رکھا جاتا ہے‘۔

فیصلے کے مطابق تفتیشی افسر نے بتایا کہ عمران خان کی رہائش گاہ پر وارنٹ کی تعمیل نہیں کی گئی، سیشن عدالت نے ٹرائل کورٹ کو قابل ضمانت وارنٹ جاری کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن ریکارڈ کے مطابق عمران خان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کیے گئے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ کو سیشن عدالت کا فیصلہ نظرانداز نہیں کرنا چاہیے تھا، سیشن عدالت کا قابل ضمانت وارنٹ جاری کرنے کا فیصلہ برقرار ہے، عمران خان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔

واضح رہے کہ 31 مارچ کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج سکندر خان نے عمران خان کے خلاف خاتون جج دھمکی کیس میں 18 اپریل تک جاری ناقابلِ ضمانت وارنٹ کو قابل ضمانت وارنٹ میں تبدیل کردیا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں‘، اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہوجائیں۔

3 مقدمات میں ضمانت کا تحریری حکم جاری

دریں اثنا لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بھی عمران خان کی 3 مقدمات میں عبوری ضمانتوں میں توسیع کا تحریری حکم جاری کردیا۔

انسداد دہشتگری کی خصوصی عدالت کی جج عبہر گل نے تحریری حکم جاری کیا جس میں عدالت نے عمران خان کو شامل تفتیش ہونے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ جےآئی ٹی تفتیش مکمل کرے اور عمران خان 13 اپریل کو دوبارہ پیش ہوں۔

واضح رہے کہ 4 اپریل کو طلب کیے جانے پر عمران خان لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوگئے تھے جہاں ان کی عبوری ضمانت میں 13 اپریل تک توسیع کردی گئی تھی۔

خیال رہے کہ عمران خان نے لاہور میں درج 3 مقدمات میں ضمانت کے لیے انسداد دہشتگردی عدالت سے رجوع کیا تھا، چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر نے عبوری ضمانتوں کی درخواستیں دائر کی تھیں۔

عمران خان کی جانب سے درخواست میں کہا گیا کہ شامل تفتیش ہونا چاہتا ہوں ،پولیس کی جانب سے گرفتاری کا خدشہ ہے، عدالت تینوں مقدمات میں عبوری ضمانت منظور کر کے پولیس کو گرفتاری سے روکے۔

واضح رہے کہ تھانہ ریس کورس لاہور میں عمران خان کے خلاف 3 مقدمات درج اور زیر تفتیش ہیں، تھانہ ریس کورس میں عمران خان کے خلاف ایف آئی آرز نمبرز 365/23، 388/23، 410/23 دفعات 312، 148، 149، 353، اور انسداد دہشتگردی کی دفعہ 7 سمیت دیگر دفعات کے تحت درج ہیں۔

مقدمات کے اخراج کی درخواست پر اعتراضات برقرار

دریں اثنا عمران خان کے خلاف درج 121 مقدمات کے اخراج کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھے گئے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے عمران خان کی مقدمات خارج کرانے کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے عمران خان کی درخواست پر رجسٹرار آفس کا اعتراض برقرار رکھا جس پر عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ہم رخواست پر عائد اعتراض ختم کر دیتے ہیں، اعتراض ختم کر کیس دوبارہ دائر کریں گے۔

واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف درج مقدمات کے اخراج کے لیے دائر درخواست 2 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی، تاہم رجسٹرار آفس نے درخواست پر مقدمات کی تصدیق شدہ نقول اور دیگر صوبوں میں درج مقدمات کے اخراج کا اعتراض عائد کیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی درخواست میں وفاق، حکومت پنجاب، ایف آئی اے اور نیب سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے، سیاسی بنیادوں پر ایک ہی نوعیت کے مقدمات درج کر کے ہراساں کیا جارہا ہے، 100 سے زائد کیسز درج کے اختیارات کا غیر قانونی استعمال کیا جا رہا ہے ، 121 جھوٹے مقدمات درج کر دیے گئے ہیں، یہ آئین کے آرٹیکل 4، 9، 15، 16 کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ ان تمام مقدمات کو خارج کرنے کا حکم دے، عدالت عالیہ عمران خان کے خلاف درج تمام مقدمات کا تفصیلی ریکارڈ طلب کرے اور کیس کے حتمی فیصلے تک درج مقدمات میں کارروائی سے روکا جائے۔

اس کے ساتھ ہی درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ کارروائی سے پہلے درخواست گزار کو نوٹس دے کر سننے کا موقع فراہم کرنے کا حکم دیا جائے اور عدالت گرفتار تمام سیاسی کارکنوں کو رہا کرنے کا حکم بھی دے۔

22 سینیئر افسران کی پوسٹنگ کے خلاف درخواست دائر

دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے 11 پولیس افسران سمیت 22 سینیئر افسران کی پنجاب میں پوسٹنگ نہ کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔

ایڈووکیٹ مبین قاضی کے توسط سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف کو ان 22 افسران پر تحفظات ہیں اس لیے انہیں الیکشن سے قبل پنجاب میں پوسٹنگ نہ دی جائے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ یہ افسران الیکشن میں اثرانداز ہو سکتے ہیں اس لیے عدالت ان کی تعیناتی نہ کرنے کا حکم دے اور الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں حکم جاری کرے۔

شہباز گل کے خلاف مقدمات کی رپورٹ طلب

دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے رہنما پی ٹی آئی شہباز گل کے خلاف درج مقدمات کی رپورٹ طلب کر لی۔

پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے اپنے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، جسٹس طارق سلیم شیخ نے شہباز گل کی درخواست پر سماعت کی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فل بینچ نے شہباز گل کو ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت دی، شہباز گل ائیر پورٹ پہنچنے تو 5 مختلف تھانوں کی پولیس وہاں موجود تھی، خدشہ ہے کہ کوئی خفیہ مقدمہ درج ہے جس میں گرفتاری ہو سکتی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ مقدمات کی تفصیلات آنے تک شہباز گل کو گرفتار نہ کیا جائے، تاہم جسٹس طارق سلیم شیخ نے یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کی یہ استدعا ہے تو پھر درخواست فل بینچ کو بھجوا دیتے ہیں، فل بینچ ایسے ہی کیس پر کارروائی کر رہا ہے۔

شہباز گل کے وکیل نے کہا کہ معاملہ بینچ میں گیا تو تاخیر کا شکار ہوجائے گا، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ آپ کا ہے۔

بعدازاں عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے شہباز گل کے خلاف درج مقدمات کی رپورٹ کل طلب کرلی۔

یاد رہے کہ اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے کیس میں یکم اپریل کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے شہبازگِل پر فردجرم ایک بار پھر مؤخر کرتے ہوئے اُن کے خلاف کیس کی مزید سماعت 6 مئی تک ملتوی کر دی تھی۔

خیال رہے کہ پولیس نے پی ٹی آئی رہنما کو 9 اگست 2022 کو بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

شہباز گل کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق ایک نیوز چینل پر پروگرام نشر کیا گیا جس میں شہباز گل بطور مہمان موجود تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بریگیڈیئر رینک سے نیچے اور اس سے اوپر کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے بریگیڈیئر کے عہدے سے نیچے کے افسران کو سیاسی جماعت سے منسلک کرنے کی کوشش بھی کی۔

بعد ازاں انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا، علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ نے شہباز گل کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اُن کو 4 ہفتوں کے لیے امریکا جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2024
کارٹون : 3 دسمبر 2024