• KHI: Asr 4:09pm Maghrib 5:45pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:09pm Maghrib 5:45pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت کی افواہیں ’پروپیگنڈا‘ قرار

شائع April 2, 2023
فیشل بن خلد نے کھجوروں، میوے اور مصالحہ جات کی تجارت کی — فوٹو: ڈان نیوز
فیشل بن خلد نے کھجوروں، میوے اور مصالحہ جات کی تجارت کی — فوٹو: ڈان نیوز

وزارت تجارت نے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت کے آغاز کی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے اسے پروپیگنڈا قرار دیا اور کہا کہ امریکن جوئش کانگریس کی پریس ریلیز کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔

امریکن جوئش کانگریس کی جانب سے 31 مارچ کو جاری کی گئی پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ رواں ہفتے پاکستان کے کھانے کی اشیا اور مصنوعات کی پہلی کھیپ اسرائیل میں آف لوڈ کی گئی۔

بیان میں کہا گیا کہ اس تجارتی لین دین میں کراچی کے پاکستانی یہودی تاجر فیشل بن خلد اور یروشلم اور حیفا شہر کے تین اسرائیلی تاجر شامل تھے، ان میں سے بن خلد کوشر فوڈ کی صنعت سے منسلک ہیں جو یہودیوں کے لیے حلال کھانا ہے اور پاکستان میں تیاری کے بعد دنیا بھر میں سپلائی کیا جا رہا ہے۔

اس حوالے بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات میں منعقد ہونے والی تجارتی نمائشوں نے پاکستان اور اسرائیلی تاجروں کو ملاقات اور معاہدے میں مدد فراہم کی جس کی بدولت اس ہفتے پاکستانی کھیپ ترکیہ اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کے ذریعے اسرائیل بھیجی جا سکی۔

امریکی یہودی کانگریس نے اہم قدم کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ پاکستانی اور اسرائیلی معیشتوں اور خطے پر وسیع اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

امریکن یہودی کانگریس نے 2005 میں اپنی عوامی سفارتکاری کے اقدامات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی کاروباری اور سیاسی شخصیت جیک روزن کے اقدامات کی بدولت پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی اور اقتصادی پیشرفت ممکن ہوئی تھی۔

اس حوالے سے اعلامیے میں کہا گیا کہ 18سال قبل اس اقدام کی بدولت پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تجارت پر قدغن لگانے والے لائسنس ختم کر دیے گئے تھے اور 12 ستمبر 2005 کو اسرائیل کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیلی تاجر برداری کے لیے پاکستان سے اشیا کے درآمدی لائسنس کو ختم کردیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں مزید بتایا گیا کہ یہ اقدام اسرائیل کے اس وقت کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سیلفان شیلوم اور پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے درمیان یکم ستمبر 2005 کو ہونے والی ملاقات کے بعد ہوا جس میں دونوں ممالک کے درمیان پہلا اعلانیہ اعلیٰ سطح کا سیاسی رابطہ قائل ہوا تھا۔

اس وقت کے پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے امریکی یہودی کانگریس کے صدر جیک روزن کی مسلم اور یہودی تہذیبوں میں امن کی کاوشوں کو تسلیم کیا تھا۔

تاہم وزارت تجارت نے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ حکومتی سطح پر تجارت کی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے اسے پروپیگنڈا قرار دیا۔

وزارت کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ امریکن جوئش کانگریس کی پریس ریلیز کو غلط انداز میں پیش کیا گیا۔

وزارت تجارت نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارے کوئی تجارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی ہم کوئی ایسا ارادہ رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک یہودی پاکستانی تاجر فیشل بنکھلڈ نے یروشلم اور حیفہ کے تین تاجروں سے کھانے کی نمائش کے دوران بیرون ملک ملاقات کی تھی اور ان کو ذاتی حیثیت میں کھانے کی اشیا کے نمونے متحدہ عرب امارات کے ذریعے بھیجے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے اس کی حمایت نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی بینکنگ یا سرکاری چینل اس کا حصہ تھا۔

وزارت تجارت کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہماری بات چیت میں مقام کے معاملے پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا کیونکہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تجارت پر 96 فیصد اشیا پر ٹیرف کو کم کر دیا ہے جس سے امارات سے اسرائیل جانے والے تاجروں کو فائدہ پہنچا ہے۔

امریکن جوئش کانگریس پریس ریلیز سے قبل 28 مارچ کو فیشل بن خلد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں بتایا تھا کہ میں نے پاکستانی مصنوعات کی پہلی کھیپ اسرائیلی مارکیٹ کو برآمد کی ہے۔

انہوں نے اپنی اس تجارت کی ویڈیو بھی شیئر کی تھی جس میں کھجوروں، میوے اور مصالحے دیکھ جا سکتے تھے اور اس ویڈیو کو ساڑھے چھ لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں۔

فیشل بن خلد نے امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے توقع نہیں تھی کہ یہ معاملہ اتنا بڑا تصور کیا جائے گا اور دعویٰ کیا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان سے اسرائیل مصنوعات کی تجارت کی گئی ہو۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت اور خریداروں کو پاکستان سے براہ راست شپمنٹس کی خریداری میں کوئی مسئلہ نہیں اور اسرائیلی بینکوں کو بھی پاکستانی بینکوں میں رقم کی ادائیگی میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما نے اس معاملے حکومت سے وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تجارت پر دفتر خارجہ کو بتانا چاہیے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ لندن پلان؟۔

ان کا کہنا تھا کہ رجیم چینج کے بعد یہ کون سی ڈیل کے تحت تجارت ہو رہی ہے، پی ڈی ایم حکومت اس پر کیوں خاموش ہے؟

ادھر وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی اور مشرق وسطیٰ طاہر اشرفی نے کہا کہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو روز کے دوران ذرائع ابلاغ پر پاکستان اور اسرایل کے درمیان تجارت کے حوالے سے جو خبریں پھیلائی گئیں، ہماری معلومات کے مطابق پاکستانی اشیا براہ راست اسرائیل نہیں بھیجی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے ان اشیا کو اسرائیل بھیجنے والا ایک پاکستانی یہودی ہے جس کو گزشتہ دور حکومت میں اسرائیل جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت یا سابقہ حکومتوں نے نہ اسرائیل سے تعلقات قائم کیے ہیں اور مسئلہ فلسطین کے حل تک قائم نہیں ہو سکتے۔

کارٹون

کارٹون : 15 نومبر 2024
کارٹون : 14 نومبر 2024