ججز بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے اعتراضات نہیں کر سکتے، جسٹس شاہد وحید
سپریم کورٹ کے جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے ہیں کہ ججز بینچوں کی تشکیل پر اعتراض نہیں اٹھا سکتے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ شکایت کنندہ بن جائیں گے اور ان کے لیے کیس سننا مناسب نہیں ہوگا۔
انہوں نے یہ ریمارکس پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے 2018 کے ضابطے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کے فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں کہے جس میں ایم بی بی ایس یا بی ڈی ایس کی ڈگری کے حصول کے دوران حافظ قرآن امیدواروں کو 20 اضافی نمبر دینے کی تجویز دی گئی۔
جسٹس شاہد وحید کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی خصوصی بینچ کا حصہ تھے، ایک روز قبل بینچ کے دیگر دو ارکان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان نے کہا تھا کہ آئین نے چیف جسٹس آف پاکستان کو یکطرفہ اور صوابدیدی اختیار نہیں دیا کہ وہ مقدمات کی سماعت کے لیے فہرست بنائیں، خصوصی بینچ تشکیل دیں اور ججوں کو منتخب کریں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے 12 صفحات پر مشتمل نوٹ کے ایک حصے میں اپنے ریمارکس میں کہا کہ بصد احترام چیف جسٹس اپنی ذاتی دانش کو آئین کا متبادل تصور نہیں کر سکتے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت مقدمات کو اس وقت تک موخر کر دیا جائے جب تک کہ سپریم کورٹ رولز 1980 میں چیف جسٹس کے بینچوں کی تشکیل کے صوابدیدی اختیارات سے متعلق ترامیم نہیں کی جاتیں۔
تاہم جسٹس شاہد وحید نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔
ایک علیحدہ پانچ صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ یہ کیس بینچ کے لیے ریگولیٹری آرڈر پاس کرنے کے قابل ہے۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ اٹارنی جنرل نے مختصر بیان داخل کرنے کے لیے التوا کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پی ایم ڈی سی نے عدالت کو بتایا تھا کہ زیر بحث ضابطہ واپس لے لیا گیا ہے اور اسے ریکارڈ پر لانے کے لیے وقت مانگا تھا۔
انہوں نے کہا کہ لہٰذا میری نظر میں بینچ کو صرف التوا کی درخواستوں پر ہی غور کرنا چاہیے تھا اور ہمارے حکم کو اس تک محدود ہونا چاہیے تھا، اس کا مطلب ہے کہ ایک ریگولیٹری آرڈر پاس ہونا چاہیے، اس کے برعکس میں نے محسوس کیا کہ مذکورہ درخواستوں پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ آرڈر میں کچھ دوسرے نکات پر بات کی گئی ہے جس کی وجہ سے میں نے یہ اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ سب سے پہلے اس نکتے کا جائزہ لیا جانا چاہیے کہ کیا اس کیس میں اس بینچ کی تشکیل پر اعتراض کو زیر غور لایا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ دو وجوہات کی بنا پر نہیں ہو سکتا، پہلی بات تو یہ کہ ایک خصوصی یا ریگولر بینچ چیف جسٹس کے انتظامی حکم سے تشکیل دیا جاتا ہے اور اس طرح موجودہ بینچ کو قانونی طور پر اس کیس کی سماعت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ واضح رہے کہ 2021 کے ازخود نوٹس کیس نمبر 4 کا فیصلہ پانچ رکنی بینچ کا ہے اور اس طرح معزز چیف جسٹس کے کسی بھی قسم کے بینچ کی تشکیل کے اختیارات کی عدالت کی تمام نظیروں پر فوقیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ تو اٹارنی جنرل اور نہ ہی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے وکیل کو کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کی تشکیل پر کوئی اعتراض ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل نے کہا کہ ان حالات کے پیش نظر میری نظر میں اس بینچ کے ججوں میں سے کوئی بھی بینچ کی تشکیل پر اعتراض نہیں کر سکتا اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں، تو ان کی حیثیت فوراً شکایت کنندہ کی ہو جاتی ہے اور نتیجتاً یہ مناسب نہیں ہو گا کہ وہ اس کیس کو سنیں اور اس پر کسی بھی قسم کا حکم دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس استدلال کو عدالتی اخلاقیات کے بنیادی ضابطہ کی حمایت حاصل ہے، اپنی حیثیت میں کوئی بھی شخص اپنے مقصد میں جج نہیں ہو سکتا، یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ اصول صرف اس وجہ تک محدود نہیں ہے جہاں جج کسی مقدمے کا اصل فریق ہو بلکہ اس کا اطلاق اس مقدمے پر بھی ہوتا ہے جس میں اس کی دلچسپی ہو۔
انہوں نے دلیل دی کہ عدالتی استدلال میں کہا گیا ہے کہ اگر بینچ کے کسی جج کو کوئی اعتراض ہے تو وہ دستبردار ہو سکتا ہے یا اس معاملے کو چیف جسٹس کے پاس بھیج سکتا ہے تاکہ کیس کو کسی اور بینچ کو سونپا جا سکے۔
جسٹس شاہد وحید نے یہ بھی کہا کہ بینچ کی تشکیل سے متعلق معزز چیف جسٹس کا انتظامی حکم اس وقت درست ہو جاتا ہے جب اس کی تعمیل کرنے والا جج کیس کی سماعت شروع کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لہٰذا اس بینچ کے کسی بھی رکن کو معزز چیف جسٹس کے انتظامی حکم کو قبول کرنے کے بعد اس بینچ کی تشکیل پر سوال اٹھانے سے روک دیا جاتا ہے۔
جج نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی الیکٹرانک میڈیا پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے طرز عمل سے متعلق مواد کی نشریات اور نشر مکرر پر پابندی کے بارے میں بھی گفتگو کی جس پر بینچ کے دیگر دو ارکان نے تنقید کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ سوال کسی وکیل کی طرف سے نہیں کیا گیا تھا بلکہ بینچ کے ایک سینئر رکن زیر بحث لائے تھے جبکہ امتناعی حکم کی کاپیاں بھی بینچ کے باقی ارکان، اٹارنی جنرل اور پی ایم ڈی سی کے وکیل کو پیش کی گئی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس سوال پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن یہ کہنا کافی ہے کہ یہاں اس پر بحث کرنا بے جا ہو گا کیونکہ اس پر نہ تو کسی وکیل کی طرف سے کوئی تاکید کی گئی تھی اور نہ ہی اسے درخواستوں میں اٹھایا گیا تھا، درحقیقت کوئی بھی فریق اس سوال پر توجہ دینے کے لیے نوٹس پر نہیں تھا۔
سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ پیمرا بھی حکم امتناعی کی دلیل پیش کرنے کے لیے حاضر نہیں تھا لہٰذا میری نظر میں انصاف کا اصول ہمیں اس وقت تک اس سوال پر قطعی رائے کا اظہار نہ کرنے کا پابند کرتا ہے جب تک کہ تمام متعلقہ افراد کو سننے کا موقع نہ مل جائے۔
مذکورہ کیس کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ آیا حفظ قرآن ایم بی بی ایس یا بی ڈی ایس ڈگری کے امیدواروں کے تعین کے لیے ایک متعلقہ معیار ہے، بلاشبہ اوپر بیان کردہ دوسرا سوال اس معاملے میں مسئلے سے متعلق نہیں ہے اور اس طرح اسے زیر بحث نہیں لایا جا سکتا اور نہ ہی اس پر کوئی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مناسب حکم یہ ہوگا کہ اٹارنی جنرل اور پی ایم ڈی سی کو اگلی سماعت سے قبل اپنا اپنا جامع بیان داخل کرنے کی اجازت دی جائے۔