’میں اپنے دوستوں کو عید پربھیجوں تو کیا بھیجوں‘
دنیا کی تمام تہذیبوں میں ہر سال مختلف تقاریب منانے کا طریقہ قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔ ہر قوم اور ملت کے افراد اپنی تقاریب کو نہایت خوشی اور مسرت سے مناتے ہیں بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے کی تقاریب میں شریک ہوکر انسانیت سے محبت اور عقیدت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہ تقاریب اجتماعی اور انفرادی حیثیت میں انسان کے لیے روحانی اور جسمانی حوالوں سے نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔
اسی طرح عید بھی مسلمانوں کے لیے جذباتی اور روحانی خوشی بہم پہنچانے کا سامان ہے۔ زندہ قومیں اپنے تہوار بڑے جوش وخروش سے مناتی ہیں کیونکہ یہ تہوار ان کی ثقافتی وحدت اور قومی تشخص کا شعار سمجھے جاتے ہیں۔ اسلامی تہواروں میں جہاں عید الفطر کو ایک غیر معمولی تہوار کی حیثیت حاصل ہے، وہاں رمضان المبارک کا پورا مہینہ بھی مسلم معاشروں میں مخصوص روایتی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔
عید کے بارے میں اردو ادب خصو صاً اردو شاعری کی روایت خاصی مستحکم دکھائی دیتی ہے۔ جہاں میر تقی میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے یہاں اس تہوار پر اشعار موجود ہیں وہیں اردو کے ممتاز شعرا کی ایک طویل فہرست ہے جن کے یہاں عید کے تہوار کو مختلف انداز میں دیکھا گیا ہے۔ میر تقی میرؔ کا یہ شعر اس دن کے حوالے سے منفرد جہت کا حامل ہے کہ
میرؔ کا خیال ہے کہ لاجوردی بامِ فلک سے جھانکنے والے ماہ تیری رویت بے شمار آنکھوں کا نور اور دلوں کا سرور ہے۔ اے منازل فلکی کو سرعت سے طے کر نے والے! تیرا پیکر پژمردہ جذبات اور مرجھائی ہوئی امنگوں کو فرحت و تازگی کا پیغام دیتا ہے۔ اسی لیے اقبالؔ نے اپنی نظم ’غرۂ شوال یا ہلالِ عید‘ میں اس نکتے کو یوں بیان کیا ہے
اقبالؔ کا مزید کہنا ہے کہ یہ ہلال ظلمات شب میں رہبری کرنے والا محضر دیرینہ سال اور بھٹکے ہوئے مسافروں کے لیے چشمۂ رہ نما ہے۔ یہ صرف نوید مسرت نہیں بلکہ جشن وانبساط (خوشی) کا اعلان ہے۔ ماہِ رمضان کےاختتام کا جہاں یہ روشن نگینہ ہے وہیں یہ روزہ داروں کے لیے اجرِ جمیل کا وسیلہ بھی ہے۔
مگر!
یہ ہلالِ عید کہیں مسرت انبساط کا پیامی بنتا ہے اور کہیں رنج والم کی دعوت اپنے ساتھ لا تا ہے۔ اسی حوالے سے نشور واحدی کی نظم ناداروں کی عید کچھ ان خیالات پر مبنی ہے
مفلس جوانی عید کی خوشیوں پر جہاں سوال اٹھاتی ہے وہیں نازک خیال اسے ’سیلاب نشاط‘ اور ’طوفانِ مسرت‘ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ نادار کی ناداری اور صاحبِ حیثیت کی فراخ دلی بھی اس دن کا حصہ ہوتی ہے۔ درو دیوار سے مسرت و بہجت کی صدائیں آتی ہیں۔ بچے بوڑھے، مردو عورت سب ہی اس کی شادمانی سے مخمور ہوتے ہیں۔ سیفی سر ونجی نے اسی بات کو یوں بیان کیا ہے
سب کا درد خرید کر عید منانے میں جو لذت ہے اس کی بات اپنی جگہ مگر اکبرؔ الہ آبادی کہتے ہیں کہ یہ عید ایسی ہے کہ جس میں میری طبعیت سنبھل نہیں سکتی اور دل بے اختیار ہوجاتا ہے
دل کی بے اختیاری، حسن کی آرائشیں اپنی جگہ لیکن یومِ عید ہمیں مضمحل اور بے چین بھی کرتا ہے۔ حالات و واقعات اس تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ ساری خوشیاں ماند پڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اس لیے اس خوشی کے موقع پر ہمیں غم سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ خوشی کے ان لمحوں میں کانٹوں پر بسر کرتی ہوئی زندگیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ حالت انبساط میں غم محسوس کرنے سے راحت ملتی ہے۔ خوشی کے قہقہوں میں ہی درد و کرب کی چیخیں سننا اصل میں انسانیت ہے۔
واصف علی واصف کا کہنا ہے کہ ’عبادت فرشتہ تو بناسکتی ہے لیکن انسان نہیں بناسکتی۔ انسان درد سے بنتا ہے‘۔ شورش کا شمیری نے عید کے مو قعے کی مناسبت سے انسانیت کے درد کو محسوس کرتے ہوئے 1965ء میں ہفت روزہ ’چٹان‘ میں ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا ’میں اپنے دوستوں کو عید پر بھیجوں تو کیا بھیجوں‘
حدیث شوقِ نقد آرزو اور آہِ رسا کے ہوتے ہوئے شگفتہ ولولوں کا تذکرہ بڑا بے معنی لگتا ہے وہ دل جو درد آشنا ہو اسے یہ عید بے مہری عالم کا تماشا معلوم ہوتی ہے۔ شورشؔ کا کہنا ہے کہ پورے عالم میں چاندنی چھٹکی ہوئی ہو تو مجھے اس سے کیا! میں تو ہر عید سے یہ سوال کروں گا کہ تو نے خوشیاں بھی تقسیم کیں تو کئی لوگوں کے جھونپڑ ے بے چراغ کیوں ہیں۔
فر شتوں کی بشارتیں اور انعامات اپنی جگہ۔ عید کی سرور بخش نعمتوں سے محظوظ ہونے والوں کی غم گساری اور غم خواری درست۔ لیکن کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ ہمارا سماج عمدہ اخلاقی تعلیمات کے ہوتے ہوئے بھی سسک سسک کر زندگی گزاررہا ہے۔ لوگوں کے مصافحے اور بغل گیر ہوتے ہوئے ایسے دل بھی ہیں جو حسرتوں کی قبر لیے جی رہے ہیں۔
عید کا دن عید بھی ہے اور وعید بھی۔ یہ مبارک باد دن بھی ہے اور تعزیت کا دن بھی۔مبارک باد ان خوش نصیبوں کے لیے جو شکر گزاری اور عجزو نیاز کا اظہار کر تے ہیں اور تعزیت ان کے لیے جن کی زندگی اس کی برکتوں کو سمیٹنے سے محروم رہ گئی۔ عمر عزیز کی راہ میں ہر گیارہ ماہ کے بعد عید کے ایام اپنے ساتھ جہاں فیوض وبرکات اور بے پایاں خوشی لاتے ہیں وہیں راہِ حیات پر رواں دواں قافلوں کے ہر فرد کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ ایک بار پھر سے تازہ دم ہو کر اپنی خوشیوں کو اپنے لیے حرز جاں بنائیں۔ قلب وروح پر جو شادمانی کی کیفیت اس دن کی نسبت سے ان پر چھائی ہے اسے نئے حوصلوں، تازہ ولولوں اور اٹل ارادوں کے ساتھ شعورو بصیرت کی روشنی میں اپنا نیا سفر شروع کر یں۔ ساغر صدیقی نے اسی کیفیت کو یوں بیان کیا ہے
اس وقت انسانیت جن بحرانوں کا سامنا کررہی ہے وہ نہ تو فطری ہیں اور نہ ہی خدا کی طرف سے ہیں بلکہ سیاسی اور اخلاقی ناکامی اس کی بنیادی وجوہ ہیں۔ امیروں اور طاقتوروں کی لالچ اور انانیت نے آج ہمیں یہ دن دکھائے ہیں۔ اس دنیا کا امیر طبقہ اس بات کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ ہم سب اور ہمارے حالات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ عید یا اس جیسے ثقافتی و مذہبی تہوار ہمیں زندگی کی اس حقیقت سے روشناس کرواتے ہیں کہ ہمارا وجود، انسانیت کی بقا، اس کی خوش حالی کا دارومدار صرف انفرادی طور پر طاقت ور ہو نے سے ممکن نہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کا خیال کرتے ہوئے اپنی زندگی کے نظام خواہ وہ سیاسی ہو، سماجی ہو یا اخلاقی، نئے سرے سے تر تیب دینے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر ہر عید یا تہوار یہ سوال ضرور چھوڑ جائے گا کہ
لکھاری جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور ایک تحقیقی مجلے ششماہی تحصیل کے نائب مدیر بھی ہیں۔ پاکستان کے معروف مجلات میں آپ کے تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔