کسی نے استعفیٰ دینے کیلئے نہیں کہا، مستعفی اٹارنی جنرل کی وضاحت
مستعفیٰ اٹارنی جنرل پاکستان بیرسٹر شہزاد عطا الہٰی نے ان میڈیا رپورٹ کو غلط قرار دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ان سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔
بیرسٹر شہزاد عطا الہٰی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے، تاہم ان خبروں کو مسترد کر دیا کہ انہیں مستعفی ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔
بیرسٹر شہزاد عطا الہٰی نے اپنے استعفے کی کاپی شیئر کرتے ہوئے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ انہوں نے 24 مارچ بروز جمعہ اپنے استعفے پر دستخط کیے جسے اسی روز صدر کو ارسال کردیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ مجھے استعفیٰ دینے کے لیے کہا گیا، اصل میں جب میں نے سینئر حکومتی ارکان کو استعفیٰ دینے کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو مجھے کہا گیا کہ میں استعفیٰ صدر کو ارسال کرنے کا فیصلہ موخر کردوں اور ان کی درخواست پر میں نے اپنا استعفیٰ ایک سینئر وزیر کے حوالے کر دیا، حکومت اپنی سہولت کے مطابق اسے صدر کو ارسال سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے کل کچھ سلیکٹڈ حقائق میڈیا میں لیک کیے گئے اور متعدد رپورٹرز اور میڈیا چینلز کی جانب سے رابطہ کیے جانے کے باوجود میں نے ان سے بات نہیں کی، اس کے بعد حقائق کو توڑ مرڑ کر پیش کیا جا رہا تھا جس کی وجہ سے اب میں یہ وضاحت دینے پر مجبور ہوا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز بیرسٹر شہزاد عطا الٰہی کے اعلیٰ قانونی عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کے التوا کا معاملہ سپریم کورٹ میں لے جانے پر قانونی ماہرین کے ساتھ اپنی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
اگرچہ ان کے استعفیٰ کی کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی، تاہم ذرائع نے اس پیش رفت کی تصدیق کی کہ 37ویں اے جی پی شہزاد عطا الٰہی نے عہدہ چھوڑ دیا ہے۔
ماڈل ٹاؤن میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں قانونی معاملات پر غور کیا گیا جس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اعظم کے معاونین خصوصی عطا اللہ تارڑ اور ملک احمد خان نے بحث میں حصہ لیا البتہ اٹارنی جنرل کی غیر حاضری نمایاں تھی۔
ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے اچانک استعفیٰ دینے کی وجہ یہ تھی کہ حکومت کا اٹارنی کے ساتھ ’اچھا‘ تعلق نہیں تھا اور وہ انہیں کوئی ایسا شخص سمجھتی تھی جو اس پر مسلط کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے نوٹیفکیشن نے اعلیٰ قانونی عہدیدار کو سب سے زیادہ مشکل میں ڈال دیا تھا کیونکہ اے جی پی کو عدلیہ کے سامنے ایگزیکٹو کے فیصلوں کا دفاع کرنا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ’وزیراعظم کے زیر صدارت اجلاس نے ای سی پی کے فیصلے کی مکمل حمایت کی اور تمام اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ساتھ کرانے کا عزم کیا‘۔
اجلاس میں ای سی پی کے فیصلے کے دفاع کے لیے حکومتی حکمت عملی اور موجودہ حالات میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کرانے میں ناکامی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ذرائع نے کہا کہ ’سب سے مضبوط دلیل جو حکومت کا خیال ہے کہ اس کے پاس یہ ہے کہ عام انتخابات کا الگ الگ انعقاد تمام متعلقہ افراد کے لیے بہت سے مسائل اور ایک بحران کا باعث بن سکتا ہے جس کے لیے سپریم کورٹ سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر کوئی حل پیش کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے‘۔
پی ٹی آئی پہلے ہی اس ’غیر قانونی فیصلے‘کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کر چکی ہے جو ای سی پی نے حکومت کی ایما پر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کیا۔
اکتوبر میں اس وقت کے اے جی پی اشتر اوصاف علی کے استعفیٰ اور منصور عثمان اعوان کی جانب سے ’عدم دلچسپی‘ کے اظہار کے بعد شہزاد عطا الٰہی کو 2 فروری کو ملک کا اعلیٰ قانونی افسر مقرر کیا گیا تھا۔
سابق صدر فضل الٰہی چوہدری کے پوتے بیرسٹر شہزاد الٰہی نے اپنی محنت، دیانتداری اور قانونی معاملات کی سمجھ بوجھ کی وجہ سے اچھی شہرت حاصل کر رکھی ہے، ان کا تعلق مشہور قانونی فرم کارنیلیس لین اور مفتی سے ہے جس کے شراکت دار معروف وکیل حامد خان اور سلمان اسلم بٹ تھے۔
اس سے قبل حکومت نےعثمان اعوان کو بھی لاہور سے منتخب کیا تھا لیکن انہوں نے 19 جنوری کو وزیر اعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے 23 دسمبر کو ان کی نامزدگی کی منظوری کے باوجود نوٹیفکیشن جاری کرنے میں حکومت کی ناکامی کی وجہ سے عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔
بیرسٹر شہزاد عطا الہٰی مستعفیٰ ہونے کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے ملک کے 37ویں پرنسپل لا آفیسر کے طور پر نامزدگی کی منظوری کے بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے نوجوان وکیل منصور عثمان اعوان کو پاکستان کا نیا اٹارنی جنرل مقرر کر دیا گیا ہے۔