’غیر آئینی اور توہین آمیز‘، قانونی ماہرین کا انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے پر عدم اتفاق
ایک حیران کن پیش رفت کے ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے گزشتہ روز ملک میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے انتخابات پانچ ماہ سے زیادہ کے لیے ( 8 اکتوبر) تک ملتوی کر دیے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس کو پیش کی گئی رپورٹس، بریفنگ اور مواد پر غور کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات کا انعقاد ایماندارانہ، منصفانہ، پرامن طریقے سے اور آئین اور قانون کے مطابق کرنا ناممکن ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کا التوا سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے کے باوجود سامنے آیا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 دن کی مقررہ مدت کے اندر کرائے جائیں جب کہ کسی بھی عملی مشکل کی صورت میں عدالت عظمیں نے اس مقررہ مدت سے کم سے کم انحراف کی اجازت دی تھی۔
الیکشن کمیشن کے ایسے فیصلے پر قانونی برادری نے اس پر تنقید کی اور اسے توہین آمیز قرار دیا۔
بیرسٹر اسد رحیم خان نے اس فیصلے کو آئین سے انحراف، قانون کا مذاق اور سپریم کورٹ کی توہین قرار دیا ہے۔
بیرسٹراسد رحیم خان نے ٹوئٹر پر تبصرہ کیا کہ یہ فیصلہ جمہوریت کے لیے بھی تباہ کن ہے، یہ اب ووٹنگ کی ترجیحات سے بالاتر ہے یعنی اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کی آزادی کا حق خطرے میں ہے۔
قانون دان ریما نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کو 5-6 ماہ تک ملتوی کرنے کی اجازت کے طور پر سپریم کورٹ کے ’کم سے کم‘ انحراف کی الیکشن کمیشن کی تشریح، اور واضح آئینی ضابطے کی خلاف ورزی کا جواز پیش کرنے کے لیے آرٹیکل 254 کا مذموم استعمال دونوں قانونی طور پر ناقص اور غلط ہیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل سلمان راجا نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ہماری بدقسمت تاریخ میں ایک اور سیاہ لمحہ قرار دیا۔
بیرسٹر محمد احمد پنسوٹہ نے فیصلے کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پر ازخود نوٹس لینا چاہیے۔
انہوں نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ایک روز قبل کے ریمارکس کو دہرایا جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا کہ شفاف انتخابات کے انعقاد میں کسی بھی قسم کی بد نیتی کی صورت میں سپریم کورٹ مداخلت کرے گی۔
سپریم کورٹ کے وکیل زاہد ایف ابراہیم نے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی تاریخ پر کرانے کے لیے دلیل میں میرٹ ہے لیکن الیکشن کمیشن کا فیصلہ اور پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کا جواز ناقابل یقین ہے۔
قانونی ماہرین کے علاوہ صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اراکین نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تنقید کی۔
سینیئر صحافی مظہر عباس نے شک کا اظہار کیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رہے گا اور اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا۔
ایڈوائزری سروسز فرم تبادلب کے سی ای او مشرف زیدی نے ای سی پی کے فیصلے کو آئین کی جان بوجھ کر اور بدنیتی کی خلاف ورزی قرار دیا۔
مشرف زیدی نے کہا کہ بروقت، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہی آگے بڑھنے کا واحد قانونی راستہ ہے، اس چال کے پیچھے عناصر عام انتخابات کو ملتوی کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے اور یہ مزید انتشار کا ایک فارمولا ہے۔
سابق سفارت کار ملیحہ لودھی نے کہا کہ اگر ای سی پی کی منطق اور جواز پر عمل کیا جائے تو پھر سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے جمہوریت اور انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ایگزیکٹو حکام نے طے کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب سب کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں۔
مصنف اور صحافی زاہد حسین نے بھی ای سی پی کے فیصلے کو آئین اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ یہ نئے استبداد کا آغاز ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی انتخابات ملتوی کرنے کی مذمت
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے کے نوٹی فکیشن کی شدید مذمت کی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کسی بھی صورت میں انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ نے واضح کر دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 224 (2) کے تحت مقرر کردہ 90 دن کی مدت کے اندر انتخابات ہونے تھے۔
بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین، سپریم کورٹ کے قانون اور قانون کی غلط تشریح کی ہے، الیکشن کمیشن نے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا اور اپنے آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔
سپریم کورٹ بار نے کہا کہ نگران حکومت بھی آرٹیکل 224 (2) میں دی گئی مدت کی پابند ہے، الیکشن کمیشن نے آئین، سپریم کورٹ کے قانون اور قانون کی غلط تشریح کی ہے۔
سپریم کورٹ بارنے کہا کہ الیکشن کمیشن نے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا اور اپنے آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی ہے، نگران حکومت بھی آرٹیکل 224 (2) میں دی گئی مدت کی پابند ہے۔