• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات میں پولیس کا کردار

شائع March 30, 2023

لکھاری ماحولیاتی تبدیلی اور ترقی سے جڑے موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں۔
لکھاری ماحولیاتی تبدیلی اور ترقی سے جڑے موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں۔

حال ہی میں اسلام آباد پولیس کو مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے واکنگ ٹریک پر گشت کرنے کے لیے گھوڑے فراہم کیے گئے ہیں۔ موٹروے پولیس کو نئی گاڑیاں جبکہ گاڑیوں کی رفتار پر نظر رکھنے کے لیے لیزر گنز بھی مہیا کی گئی ہیں۔

شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے پولیس کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کی گئی ہے جبکہ جرائم کی تحقیقات بھی ڈیجیٹل کردی گئی ہیں، پارکوں میں گشت کے لیے سائیکل جبکہ صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے خواتین اہلکاروں کو موٹربائیکس بھی دی گئی ہیں۔ اس طرح کے تمام اقدامات کا مقصد عوام کی حفاظت اور بہتر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔

لیکن کیا کراچی میں اربن فلڈ کی صورتحال کے دوران، جیکب آباد میں ہیٹ ویوز کے اثرات، ژوب میں خشک سالی، لاہور میں فضائی آلودگی، نوشہرہ میں غیرمعمولی بارشوں، یا ہنزہ میں گلیشیئر پگھلنے کے باعث آنے والے سیلاب کی صورتحال میں بھی پولیس کو شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے وسائل فراہم کیے جاسکتے ہیں؟

شدید موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات میں ہمیں سب سے پہلے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ایسی ناگہانی صورتحال میں سب سے پہلے ردعمل دیتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی، قانون کے نفاذ اور پولیس کی سرگرمیوں پر اثرانداز ہورہی ہے۔ جس کے تحت یہ ضرورت جنم لے رہی ہے کہ ہم اپنی پولیس کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات کے پیش نظر، اس ضرورت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ پولیس اپنی روزمرہ کے روایتی فرائض سے ہٹ کر اپنا کردار ادا کرے۔

درجہ حرارت میں اضافے اور غیرمعمولی بارشیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اپنی اندرونی سیکیورٹی سے متعلق کوششوں پر نظرثانی کریں اور ردِعمل دینے والی حکمت عملی کے بجائے ایسی حکمتِ عملی تشکیل دینے پر زور دیں جو ایسی بدترین صورتحال کو پیدا ہونے سے روکے۔ کیا ہم ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کیے بغیر ان عناصر کو بہتر کرنے پر غور کرسکتے ہیں؟

پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آفات کے دوران اپنے کردار پر کم ہی توجہ دی ہے۔ ہنگامی حالات میں کام کرنے والے اہلکاروں، کمیونیٹز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز جنہیں موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات کا مثبت ردعمل دینا ہوتا ہے ان کے کردار سے متعلق اس وقت لاتعداد مسائل ہیں۔

پاکستان میں پولیس کو مضبوط بنانے کے لیے نوآبادیاتی ذہنیت ترک کرکے نئی سوچ کی ضرورت ہوگی تاکہ ہنگامی حالات میں وہ اس سے متعلق تیاری کرسکیں اور اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔ دنیا کے دیگر حصوں میں یہ اکثر کمیونٹی کے زیر انتظام پولیسنگ ماڈلز اور آفات سے قبل کمیونٹیز کے اندر رابطوں سے منسلک ہوتا ہے۔

پاکستان کے بدلتے ہوئے موسمی بحران میں پولیس کے کاموں کو ان 4 اہم زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  • سیلاب، ہیٹ ویوز، خشک سالی، لینڈ سلائڈ اور برفانی طوفانوں جیسی آفات کے دوران بہتر ردعمل دینے میں مقامی انتظامیہ کی مدد۔
  • متعقلہ اداروں سے تعاون کرکے ماحولیات سے متعلق قوانین کے نفاذ میں حکومت کی مدد کرنا۔
  • بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلی سے جنم لینے والی آفات کی وجہ سے جرائم کی تبدیل ہوتی نوعیت سے نمٹنا۔
  • لینڈ مافیا اور جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائی کرنا جو غیرقانونی طور پر عوامی ملکیت اور قدرتی وسائل جیسے کمیونل زمینیں، جنگلات، پارک، دریا کے کناروں کو نقصان پہنچانے اور ان کناروں پر ہونے والی ریت کی کان کنی، پہاڑوں میں ہونے والی کان کنی اور پتھروں کی کٹائی جیسے ماحول کو نقصان پہنچانے والے اقدامات میں ملوث ہوتے ہیں۔

ان حالات میں متعدد کام ایسے ہیں جو پولیس سرانجام دینے کی اہل ہے اور اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ماحول کو محفوظ بنانے کے لیے یہ اقدامات کرے گی۔ جب موسم کی شدت اپنی انتہا کو پہنچے تو ایسے میں لوگوں کی حفاظت پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

اگرچہ پولیس متحرک ہونے، اہم مشنز اور آپریشنز انجام دینے میں فوج سے مقابلہ نہیں کرسکتی لیکن پولیس کو اکثر آفت زدہ علاقوں سے متاثرین کے انخلا، سیلاب متاثرین کو نکالنے کے عمل، پناہ گزیروں کو سہولیات فراہم کرنے اور آفت زدہ علاقوں میں امن و امان کی صورتحال قابو میں رکھنے کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ حکومت عموماً متاثرین کے سرچ اور ریسکیو آپریشنز، ریلیف اور آبادکاری کے انتظامات اور عوامی کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پولیس پر انحصار کرتی ہے۔

ملک میں آفات کے ناختم ہونے والے اس سلسلے نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کاندھوں پر انتظامیہ کی مدد کی صورت میں اضافی ذمہ داریاں ڈال دی ہیں۔ پولیس کے پاس شاید وسائل، سازوسامان یا تربیت ناکافی ہو لیکن ہنگامی حالات میں ان کی مدد ضرور طلب کی جاتی ہے۔ ان کی ذمہ داریوں میں اشیائے خورونوش کی فراہمی، عارضی پناہ گاہوں میں امن و امان کو قائم رکھنا، برفانی طوفانوں میں ریسکیو آپریشنز اور شدید خراب موسمی صورتحال میں ٹریفک کی آمدورفت کو سنبھالنا بھی شامل کردی جاتی ہیں۔

کرائسز منیجمنٹ میں مدد فراہم کرنے، خوراک اور طبی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث ہونے والے جرائم کے واقعات سے نمٹنے کے لیے پولیس کی ہی جانب دیکھا جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات سے مقابلہ کرنے کے لیے پولیس کا کردار اور ذمہ داری نہایت اہم ہوتی ہے۔

ماحولیاتی جرائم ایسی غیر قانونی سرگرمیاں ہیں جو قومی اور صوبائی دونوں سطحوں پر خلافِ قانون ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور جرائم کے درمیان تعلق ملک میں جرائم کی نوعیت تبدیل کررہا ہے۔ ماحولیاتی جرائم، پاکستان میں منظم جرائم کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ایک قسم بن کر سامنے آرہے ہیں۔ ان میں آلودگی سے متعلق متعدد جرائم جیسے آبی گزرگاہوں میں مضرِ صحت فضلے کو پھینکنا، فضا میں آلودہ گیسوں کا اخراج، اوزون کو نقصان پہنچانے والے مواد کی اسمگلنگ، جنگلی حیات کی تجارت، غیرقانونی شکار، جنگلات کی غیرقانونی کٹائی اور لکڑی کی سرحد پار تجارت شامل ہیں۔

اگرچہ اس طرح کے بیشتر مسائل تو متعلقہ ادارے ہی حل کرتے ہیں لیکن انہیں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔ اگر پولیس اس حوالے سے حساس اور تربیت یافتہ نہیں ہوگی اور ایس او پیز اور دیگر ضروری قواعدوضوابط سے لیس نہیں ہوگی تو ہم یہ کیسے امید کرسکتے ہیں کہ وہ ماحول کو جرائم سے بچانے میں متعلقہ اداروں کے ساتھ تعاون کرے گی؟

جرائم پیشہ گروہوں کی جانب سے عوامی وسائل کا استحصال، ماحول کو نقصان پہنچاتا ہے۔ تنازعات کا شکار چند پاکستانی علاقوں میں یہ غیرریاستی مسلح گروہوں کو مالی مدد فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہمیشہ ماحولیاتی جرائم میں ملوث عناصر سے مقابلہ کرنے، ان کے خلاف تحقیقات اور ان کے نیٹ ورکس ختم کرنے کی صلاحیت بھی موجود نہیں ہوتی۔

ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے پولیس کو موسمیاتی اثرات سے نمٹنے میں انہیں مدد ملے گی لیکن اس کا تعلق حکمتِ عملی کی تیاری اور پولیس کے شعبے میں تنظیمی تبدیلیاں لانے سے منسلک ہے ۔ اس سفر کا نقطہ آغاز ٹیکنالوجی کا حصول نہیں بلکہ حکمت عملی اور اندرونی ڈھانچے کی نتظیم نو ہے۔ مطلوبہ اہداف کا حصول تو آسان ہوتا ہے لیکن اس کے لیے تبدیلی لانا دشوار ہوتا ہے البتہ یہ تبدیلی پائیدار ضرور ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر پولیس کے محکمے میں متعدد خصوصی یونٹس ہیں۔ پولیس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ موسمیاتی خطرات اور آفات میں کردار ادا کرنے کے لیے خصوصی یونٹ قائم کریں۔ اندرونی ادارہ جاتی ڈھانچوں کی تشکیل، آفات سے نمٹنے کے لیے خصوصی شعبے، تربیت اور ترقیوں کے معیار اور قدرتی آفات میں پولیس کو فعال بنانے کے لیے ایس او پیز کی تشکیل کے ذریعے عملے کی صلاحیتوں اور پولیس فورس کی حساسیت میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

ہنگامی حالات میں انتظامی خدمات فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ ادارے تمام مطلوبہ آلات سے لیس ہوں اور اس کام کے لیے مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی میں مقامی انتظامیہ سے تعاون کرنا ہوگا۔

پولیس کا کام شہری امور میں معاونت کا ہوتا ہے اور یہ کام رضاکاروں اور مقامی افراد کے ساتھ مل کر زیادہ بہتر طور پر انجام دیا جاسکتا ہے۔ ہنگامی خدمات کے لیے فوج پر انحصار کرنا اگر ناکام نہیں تو کم از کم ایک کمزور ریاست کی نشانی ضرور ہے۔ ہمیں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت سازی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

بہرحال موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات کے انسانوں کی سلامتی پر مرتب ہونے والے اثرات سے نمٹنے میں پولیس کا کلیدی کردار ہے۔


یہ مضمون 23 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

علی توقیر شیخ

لکھاری اسلام آباد میں واقع لیڈ پاکستان نامی ماحولیات اور ترقیاتی مسائل پر خصوصی طور پر کام کرنے والی تھنک ٹینک کے سی ای او ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024