پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، چاہتے ہیں اسمبلیوں کے الیکشن اکٹھے ہوں،وزیر داخلہ
قومی اسمبلی میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے جس میں ملکی معیشت اور سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ دیگر اہم امور پر بحث کی جائے گی۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس آج سہ پہر طلب کیا گیا تھا تاہم کچھ وجوہات کے سبب اجلاس ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا۔
آج پارلیمنٹ کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر سربراہی شروع ہوا۔
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں گزشتہ جام شہادت نوش کرنے والے پاک فوج کے جوانوں اور افسر کو سلام پیش کرتا ہوں، جہاں جوانوں نے جام شہادت نوش کیے ہیں وہیں آفیسر بھی ان کے ساتھ ساتھ رہے ہیں اور یہی وہ امتیاز ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کی افواج دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں حاصل کررہی ہیں، اور انہوں نے بڑی دلیری اور جرات کے ساتھ اس ناسور کو کنٹرول کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ایسا ادارہ ہے جس کی ملک و قوم کی ذمے داری ہے بلکہ اس سے افضل بھی کوئی ادارہ نہیں ہے، تمام اداروں کی اپنی اپنی آئینی حدود اور ذمے داریاں ہیں، سب کا اپنا آئینی اختیار ہے لیکن یہ پارلیمنٹ کے مرہون منت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت سیاسی، انتظامی اور عدالتی بحران ہے لیکن یہ بحران نہیں ہے بلکہ پیدا کیا گیا ہے، پیدا کیا جا رہا ہے، اس میں مسلسل اضافے کی کوشش ہو رہی ہے اور اگر ان کوششوں کی بات کی جائے تو بات ایک ہی شخصیت اور ایک جتھے پر جا کر رکتی ہے، حالات خراب نہیں ہیں لیکن خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک جماعت اور اس کا لیڈر جس کا نام عمران خان نیازی ہے، وہ پچھلے تقریباً 10سالوں سے اس نے یہ کوششیں شروع کی ہیں کہ ملک میں افراتفری ، انارکی اور بحرانی کیفیت پیدا کی جائے، 126 دن کا دھرنا دیا اور اس دھرنے کے دوران جس قسم کی تقاریر ہوئیں، جس طرح سے پارلیمنٹ کی تضحیک کرنے کی کوشش کی گئی، وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد 2018 تک مسلسل کبھی لانگ مارچ، کبھی احتجاجی جلسے، پورے پورے پانچ سال کے عرصے میں اس بندے نے ایک ہفتہ بھی سکون سے نہیں گزارا، 2018 میں کچھ قوتوں بالخصوص اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے الیکشنز کو چوری کیا اور الیکشن کو اس انداز سے مینج کیا کہ ان کو برسراقتدار لانے کی کوشش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے کہا کہ میثاق معیشت کی پیشکش کی جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے یہاں تک کہا کہ عمران خان قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن موصوف یہاں پر اٹھے اور گالیاں دینا شروع کردیں کہ آپ لوگ تو ڈاکو ہیں، اپنے کیسز ختم کرانا چاہتے ہیں، میں تو آپ کو چھوڑوں گا نہیں۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ اس کے بعد پونے چار سال سیاسی انتقام لیا گیا، جھوٹے کیسز بنائے گئے، نیب کو اس طرح سے استعمال کیا گیا، اگر نیب چیئرمین نے استعمال ہونے سے انکار کیا تو اس کی باقاعدہ ویڈیو لیک ہوئی، آج بڑے اعتراضات ہو رہے ہیں کہ یہ ویڈیو لیک کہاں سے ہو رہی ہیں، تو پہلے آپ بتائیں کہ چیئرمین نیب کی جو ویڈیو لیک ہوئی اس کی آج تک انکوائرہ تو نہیں ہوئی لیکن اس میں کوئی شک ہے کہ یہ ویڈیو لیک آپ نے کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پونے چار سالوں میں آپ نے معاشی طور پر ملک کا بیڑا غرق کیا، آئی ایم ایف کے ساتھ ایسا معاہدہ کیا کہ جس کی شرائط کو پورا کرتے کرتے آج مہنگائی اور ڈالر یہاں پہنچ چکے ہیں، اس میں موجود حکومت کا اس کے علاوہ کوئی ایک عمل یا غلطی کوئی سامنے رکھ دے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل ہو رہا ہے، جاتے جاتے انہوں نے جو عمل کیا اس سے آئی ایم ایف کے ساتھ اعتماد کو ٹھیس پہنچی اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے ساری شرائط پوری کریں پھر آپ سے معاہدہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پانچ سالوں میں وہ ملک جو 18-2017 میں لوڈ شیڈنگ پر قابو پا چکا تھا، دہشت گردی پر قابو پا چکا تھا، 6.2 پر شرح نمو تھی، ترقی کی منازل طے کررہا تھا، اس کو اس ٹولے اور نام نہاد لیڈر نے اس مقام تک پہنچایا۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ پچھلے 10 سے 11ماہ کے دوران عمران خان نے سیاسی بحران پیدا کرنے، انتظامی بحران پیدا کرنے اور حالات کو بگاڑنے، ملک میں افرا تفری اور انارکی پھیلانے کی کوشش کی، یہ فساد ہے اور اگر قوم نے اس کا ادراک نہ کیا تو یہ قوم اور ملک کو کسی حادثے سے دوچار کردے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں اس طرح کی ایک سے زیادہ مثالیں موجود ہیں، ہٹلر بھی بہت جوشیلی تقریریں کیا کرتا تھا، وہ بھی لوگوں کے ذہنوں پر بڑا اثر کرتا تھا، اس وقت بھی وہاں کے دانشمند لوگوں نے کہا تھا کہ اگر قوم نے اس کا ادراک نہ کیا یہ ملک اور قوم کو کسی حادثے سے دوچار کردے گا، قوم نے اس کا ادراک نہ کیا تو دیکھیں وہ خود کس انجام سے دوچار ہوا اور قوم اور ملک کو کس انجام سے دوچار کیا، اگر جرمن قوم کی زندگی میں وہ نام نہاد لیڈر نہ آیا ہوتا تو وہ قوم آج قیادت کررہی ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے ملک کو بحران سے دوچار کرنے کے لیے گھٹیا سے گھٹیا عمل کیا گیا، معاشی طور پر باقاعدہ جدوجہد کی کہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے اور پھر 26 نومبر کو یہ کہا گیا کہ میں انسانوں کا سمندر لے کر آؤں اور اب پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے، نومبر میں ایک اہم تعیناتی اور ادارے کو متنازع بنانے کی کوشش کی، وزیر آباد واقعے کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ یہ اسلام آباد کا گھیراؤ کر کے الیکشن کی تاریخ لینا چاہتے تھے لیکن جب یہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے اور عوام نے اسے مسترد کیا، ان کے فتنے کے ایجنڈے کے ساتھ کھڑے ہونے سے انکار کیا اور اس مایوسی اور غصے میں انہوں نے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کردیا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کے بعد 90دن میں الیکشن کرانے کی آئینی قدغن ہے اور اس میں بھی افراتفری پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے، زمان پارک میں یہ 14 سے 18 مارچ تک مورچہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے جہاں پر پیٹرول بم، غلیلیں، پتھروں کی بوریوں سمیت ہر چیز وہاں جمع کی، جب عدالت کے حکم پر پولیس ڈی آئی جی آپریشنز کی قیادت میں وہاں پہنچی تو ان پر حملہ کیا گیا، ان کو زخمی کیا لیکن وہاں پر اس کے باوجود پولیس یا رینجرز کا کوئی بندہ اسلحے کے ساتھ داخل نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ 18مارچ کو انہوں نے جوڈیشل کمپلیکس پر اور اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ آور ہوئے، وہاں مرکزی دروازوں کو توڑ کر داخل ہوئے، توڑ پھوڑ کی اور عدالت کارروائی میں مداخلت کی اور اس بات کی کوشش ان کے اوپر مقدمات ہیں جن کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ کیس میں ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، ایک رسید پیش کی لیکن وہ بھی جھوٹی ثابت ہوئی جبکہ ٹیریان وائٹ کیس میں ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے جبکہ فارن فنڈنگ اکاؤنٹ میں بھی کیس بالکل سیدھا معاملہ ہے لیکن قانون کی عملداری کا پرچار کرنے والا عدالتوں میں پیش ہونے سے گریزاں ہے۔
ان کا کہناتھا کہ حکومت اور نگراں صوبائی حکومت نے بھی اس بات کا خیال رکھا کہ انسانی جان کا کوئی ضیاں نہ ہو، خون خرابا نہ ہو جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ فتنہ چاہتا ہے کہ اسے خون اور لاشیں ملیں تاکہ اس پر یہ اپنے افراتفری اور انارکی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ یہ بات آئین میں درج ہے کہ اسمبلی تحلیل ہو تو 90 دن میں الیکشن ہونا چاہیے تو کیا آئین میں یہ بات درج نہیں ہے کہ الیکشن شفاف اور منصفانہ انداز میں ہونے چاہئیں جو الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، پہلے الیکشن تین دن کے وقفے سے ہوتا تھا اور اس میں شفاف الیکشن کا تصور کو شکست ہوتی تھی، جو لوگ تین دن پہلے جیت جاتےتھے، تین دن بعد بھی وہی کامیاب ہو جاتے تھے اور اسی وجہ سے دونوں الیکشن ایک ہی دن کران طے پایا اور ساتھ ہی یہ طے پایا کہ پورے ملک میں نگراں سیٹ اپ ہو گا، کیا یہ چیزیں آئین میں موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات بنیادی طور پر غلط ہے کہ ہم الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، ہم تو کہہ رہے ہیں کہ جو آئین میں درج ہے اس طریقے سے الیکشن ہو، اسمبلیوں کے الیکشن اکٹھے ہوں، نگراں سیٹ اپ میں ہوں، شفاف اور آزادانہ ہوں اور وہ ملک میں کسی نئے بحران کا پیش خیمہ بننے کے بجائے سیاسی استحکام لائیں، اگر عبوری سیٹ اپ نہیں ہو گا تو اس کے لیے کہنا بڑا آسان ہو گا وفاقی اور صوبائی حکومت موجود تھی اور شفاف انتخابات نہیں ہوئے، مجھے ہرایا گیا اور میں ہارا نہیں ہوں۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے ایک اور اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اگر صوبہ پنجاب میں الیکشن ہونے کے بعد کوئی جماعت اپنی حکومت بنا لیتی ہے تو قومی اسمبلی کی تقریباً 60فیصد پنجاب کی ہیں، تو کیا جو پارٹی پنجاب میں اپنی حکومت بنائے گی اور جنرل الیکشن میں وہاں پر برسر اقتدار ہو گی اور نگراں سیٹ اپ نہیں ہو گا جیسے ابھی وفاق، صوبہ سندھ اور بلوچستان میں نہیں ہو گا تو کیا پھر دوسری جماعتوں کے لیے یکساں مواقع میسر آ سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کا کہہ کر کوئی انہونی بات نہیں کررہے، ہم وہی بات کررہے ہیں جو اس ملک کے بہترین مفاد میں ہے اور میں معزز ایوان سے گزارش کروں گا کہ وہ حکومت اور تمام اداروں کی رہنمائی کرے، تمام اسمبلیوں کے الیکشن اکٹھا، آزادانہ اور شفاف ہوتے ہیں تو سب کے لیے الیکشن میں یکساں موقع ہو گا لہٰذا ایوان میں ان نکات پر بحث کرائی جائے۔
بعدازاں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 27 مارچ تک ملتوی کردیا۔