• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر اضافی نمبر دینا سمجھ سے بالاتر ہے، جسٹس فائز عیسیٰ

شائع March 15, 2023
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر اضافی نمبر دینا سمجھ سے بالاتر ہے، کیا کسی عیسائی کو انجیل حفظ کرنے پر اضافی نمبر ملتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی اسپیشل بینچ نے میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20 نمبر دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر اضافی نمبر دینا سمجھ سے بالاتر ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف میڈیکل ڈگری ہی نہیں ہر شعبے میں حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر 20 اضافی نمبر دیے جاتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ حساس معاملہ ہے، مسلمان حفظ اللہ کے لیے کرتا ہے نمبر لینے کے لیے نہیں، کیا کسی مسیح کو انجیل حفظ کرنے پر 20 اضافی نمبر ملتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیس کو تبھی سنا جاسکتا ہے جب شفافیت سے مقرر ہوا ہو، شفاف طریقہ کار سے مقرر نہ ہونے والے مقدمات کے فیصلے پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا کام کرنے کا طریقہ کار ایک معمہ ہے جو میری سمجھ سے بالاتر ہے، جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس طریقہ کار سے یہ کیس نہیں سن سکتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20 نمبر دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت پر ’خصوصی‘ بینچ بنانے پر اعتراض اٹھا دیا۔

دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسپیشل بینچ میں کیس سننے سے انکار کر دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ رولز میں کہاں درج ہے کہ خصوصی بینچ بنایا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ کا ریگولر بینچ کیسز کیوں نہیں سن سکتا؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اتنا بھی کیا ضروری معاملہ تھا کہ لارجر بینچ یا فل کورٹ کے بجائے خصوصی بینچ بنایا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا اسپیشل بینچز بنائے جانے چاہئیں؟ ہاں یا نہ میں جواب دیں۔

اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہٰی نے کہا کہ اگر عدالت اس معاملے پر نوٹس کرے گی تو جواب دے دوں گا۔

پی ایم ڈی سی کے وکیل نے دلائل دیے کہ روایت پر بھی عمل ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ہر چیز رولز یا آئین میں درج ہو، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا مارشل لا لگ جائے تو اس کو بھی روایتی عمل سمجھ کر قبول کر لیں گے، جو آئین و قانون میں درج ہو اسی پر عمل کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ تین ججز کو تین مختلف بینچز سے اکٹھا کرکے اس بینچ میں بٹھا دیا ہے، یا تو کچھ اتنا اہم ہوتا کہ چھٹی کے دن عدالت لگتی اور خصوصی بینچ بنایا جاتا، میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر 20 اضافی نمبر دینے کا حکم 14 ماہ پرانا ہے۔

فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ اگر 20 اضافی نمبر حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر دینے ہیں تو پارلیمان سے قانون سازی کرائیں، کیا پارلیمان کا احتساب نہیں ہوتا، کیا جج قابل احتساب نہیں، میرے علم کے مطابق ججز کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس قتل کے ایک ملزم کا کیس کل فکس کر دیں اور ویسا ہی دوسرا کیس مقرر نہ کریں تو کیا ہوگا، ججز پر غیر ضروری الزامات لگنے نہیں چاہئیں۔

’پیمرا چینلز پر پابندی لگا کر ٹی وی انڈسٹری تباہ کر رہا ہے‘

دوران سماعت جسٹس فائز عیسیٰ نے ججز کے کنڈکٹ سے متعلق خبر نشر نہ کرنے کے پیمرا کے خط پر تنقید کی اور ریمارکس دیے کہ حال ہی میں پیمرا نے ججز سے متعلق کوئی خط جاری کیا ہے، پاکستان میں سب آزاد ہیں جس کے دل میں جو آتا ہے وہ کرتا ہے، کوئی میڈیا کی آزادی کیسے دبا سکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاثر یہ جاتا ہے کہ شاید عدالت نے لوگوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیمرا نے اپنے خط میں سیٹلائٹ چینلز کو ججز کے کنڈکٹ اور ریاستی اداروں پر خبر چلانے سے روکا ہے اس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یہ ریاستی ادارے کیا ہوتے ہیں، سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں بلکہ آئینی ریگولیٹری باڈی ہے، پیمرا نے تو سپریم کورٹ کے اسٹیٹس میں ترقی کر دی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیا پیمرا نے عدلیہ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے، پیمرا ٹی وی چینلز کو کچھ نشر کرنے سے کیسے روک سکتا ہے، سول جج کو گالیاں دے دی جائیں پیمرا نہیں بولتا، کیا ماتحت عدلیہ کے جج کم تر مخلوق ہیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر میں اٹارنی جنرل کو کچھ دے ماروں اور کورٹ رپورٹرز خبر دے دیں تو ان کا چینل بند ہو جائے گا، پیمرا چینلز پر پابندی لگا کر ٹی وی انڈسٹری تباہ کر رہا ہے، پیمرا انہی ٹی وی چینلز کے لائسنسز پر کماتا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ جب ٹی وی خبریں نہیں چلا سکے گا تو عوام سوشل میڈیا ہی دیکھیں گے، پیمرا کا یہ خط شرعی عدالت میں جائے تو اسلام کے منافی ہونے پر بھی معطل ہو جائے گا، اگر کوئی جھوٹی خبر دے تو اس کے خلاف پیمرا کارروائی کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کیوں سیشن، سول جج یا مجسٹریٹ کے خلاف بولنے پر کارروائی نہیں کرتا، پچھلے سال جنوری میں یہ کیس لگانے کو کہا اور رجسٹرار صاحب نے مقرر کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔

’کیا سپریم کورٹ کے جج بن جائیں تو کوئی آپ کو پوچھ نہیں سکتا‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کے جج بن جائیں تو کوئی آپ کو پوچھ نہیں سکتا، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا نمبر 140 کے قریب ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اتنی دفعہ مارشل لا لگ چکا ہے لیکن پیمرا سمیت سب کی ذہنیت نہیں بدلی، کیا آپ ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر میں غلط کروں تو میرا کنڈکٹ کیوں زیر بحث نہیں آسکتا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024