• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

مقتول پی ٹی آئی کارکن کو ہسپتال پہنچانے والے 2 افراد زیرحراست، ایف آئی آر تاحال درج نہ ہوسکی

شائع March 11, 2023
زیرحراست ملزمان نے دعویٰ کیا کہ علی بلال کو ان کی گاڑی سے ٹکر کے سبب متعدد چوٹیں آئی تھیں—فائل فوٹو: پی ٹی آئی
زیرحراست ملزمان نے دعویٰ کیا کہ علی بلال کو ان کی گاڑی سے ٹکر کے سبب متعدد چوٹیں آئی تھیں—فائل فوٹو: پی ٹی آئی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکن علی بلال کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ گہرے زخموں کو قرار دیے جانے کے باوجود پولیس نے اس حوالے سے تاحال مقدمہ درج نہیں کیا۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس ذرائع نے بتایا کہ علی بلال کی لاش ہسپتال چھوڑ کر فرار ہونے والے 2 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ علی بلال ایک سڑک حادثے میں زخمی ہوا تھا۔

کئی مقدمات میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کرنے والے سینیئر وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ علی بلال کی موت واضح طور پر دوران حراست تشدد کا کیس ہے، ایف آئی آر درج کرنے کے قانونی حق سے انکار نے پولیس کی بدنیتی کو ظاہر کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ علی بلال کے اہل خانہ پولیس کے خلاف قتل کے مقدمے کے اندراج کے لیے عدالت سے رجوع کر رہے ہیں۔

اظہر صدیق نے کہا کہ ’قانونی-طبی معائنے اور 8 مارچ کے ویڈیو کلپس (جس میں علی بلال کو پولیس وین کے اندر دیکھا گیا) پولیس کے مظالم اور بربریت کے ثبوت ہیں‘، دوسری جانب پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ ویڈیوز پرانی ہیں۔

اظہر صدیق نے مزید کہا کہ ’علی بلال کو پولیس کی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، مقتول کے اہل خانہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ علی بلال کے والد کی جانب سے درج شکایت میں نامزد افراد کے خلاف مقدمہ درج کروا سکتے ہیں‘۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل علی بلال کے والد لیاقت علی نے اپنے بیٹے کے مبینہ قتل کا مقدمہ درج کرنے کے لیے ریس کورس پولیس کو درخواست دی تھی، انہوں نے وزیر داخلہ، نگران وزیراعلیٰ پنجاب، آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور، 2 انسپکٹرز اور 40 پولیس اہلکاروں کو نامزد کیا تھا۔

2 افراد گرفتار

پولیس ذرائع نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے علی بلال کو سروسز ہسپتال لاہور لانے والے 2 ملزمان کا سراغ لگا کر گرفتار کرلیا جو اُسے ایمرجنسی میں چھوڑ کر موقع سے فرار ہوگئے تھے۔

پولیس نے کہا کہ 2 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے جن کی شناخت عمر اور جہانزیب کے نام سے ہوئی ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ علی بلال کو گاڑی سے ٹکر کے سبب متعدد چوٹیں آئی تھیں۔

ذرائع نے بتایا کہ دونوں نے دعویٰ کیا کہ حادثہ فورٹریس اسٹیڈیم میں پیش آیا، جہاں بلال 5 دیگر دوستوں کے ساتھ موجود تھے جوکہ ممکنہ طور پر پی ٹی آئی کے کارکن تھے۔

پولیس ذرائع نے بتایا کہ زیرحراست دونوں مشتبہ ملزمان کو سیف سٹی کیمروں سے حاصل کی گئی فوٹیج کے ذریعے ٹریس کیا گیا۔

تشدد کی تصدیق

علی بلال پر تشدد کے دعووں کی تصدیق میو ہسپتال کی جانب سے جاری کردہ اُن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہوئی ہے، اس رپورٹ میں علی بلال کی کھوپڑی میں فریکچر اور اس کے نتیجے میں خون بہنے کو موت کی وجہ قرار دیا گیا، رپورٹ میں علی بلال کے جگر، تلی اور نازک اعضا کو پہنچنے والے نقصان کا بھی ذکر کیا گیا، جس کی وجہ سے بہت زیادہ خون بہا۔

رپورٹ میں پولیس کے ان دعووں کی بھی تردید کی گئی کہ علی بلال کی موت جان لیوا حادثے یا زمان پارک کے قریب جھگڑے کے نتیجے میں ہوئی۔

ایک قانونی- طبی معائنہ کار نے بتایا کہ جان لیوا ٹریفک حادثوں میں عام طور پر مریضوں کے ایک یا دو اعضا کو نقصان پہنچتا ہے اور سر پر بڑا فریکچر یا جسم کے کچھ حصوں پر چوٹیں آجاتی ہیں لیکن علی بلال کے پوسٹ مارٹم میں 26 سے زیادہ زخم سامنے آئے ہیں، یہ واضح طور پر وحشیانہ تشدد کا کیس ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024