اس تحریر کا پہلا حصہ یہاں پڑھیے۔
تخت اور تاج کو پانے کی چاہت انسان کے خون میں کسی سحر کی طرح گردش کرتی ہے اور اس کی تسکین احسن طریقے سے ہو اس کے لیے انسان ابھی ذہنی طور پر اتنا جوان نہیں ہوا ہے۔ اس لیے تخت کے حصول کے لیے انسان اپنے سارے رشتوں کے نخلستان کو، چاہت کی دیا سلائی سے بھسم کر دیتا ہے۔
تخت کے لیے انسان سب کچھ کرتا ہے مگر تخت اس بے وفا محبوبہ کی طرح تھا اور ہے جس کی مسکراہٹ سب کے لیے ہے لیکن وہ وفادار کسی کا نہیں ہوتا کہ وفاداری کی ٹھنڈی چاندنی راتوں کے سکون سے خون بہانے والے کا کیا واسطہ؟
ان دنوں یہاں بھی کچھ ایسا ہی منظرنامہ تھا۔ اگر ہم 1600عیسوی سے دیکھیں تو آدم شاہ، میاں نصیر اور میاں یار محمد کے سر دہلی سرکار نے یا تو گندم کے خوشے کی طرح کاٹ دیے یا پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیے۔ جب دہلی کے شب و روز سے سکون کا پرندہ اُڑ گیا اور وحشتوں کے چُغدوں نے آکر ڈیرہ ڈالا تو کلہوڑوں کے سروں پر سے مغل سلطنت کا پھندہ فی الوقت ہٹ گیا اور کلہوڑہ حکمران آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔ خون نےخون کا گریبان پکڑ لیا۔
اگر ہم 1600ء سے 1753ء تک ایک لکیر کھینچیں تو کلہوڑوں کے پاس 150 برس سوچنے کے لیے بہت تھے، کیونکہ ان کے مغرب میں ایران، شمال میں افغانستان، مشرق میں دہلی سرکار اور جنوب میں گجرات اور کَچھ تھے اور ساتھ میں نادر شاہ اور ابدالی کی لوٹ بھی ان کے سامنے تھی، لگتا کچھ ایسا ہے کہ کلہوڑوں نے گزرے وقتوں سے کچھ نہیں سیکھا کیونکہ اگر سیکھتے تو ایک دوسرے کا گلا کبھی نہیں پکڑتے۔
میاں نور محمد کی وفات 7 دسمبر جمعہ کو ہوئی تھی، 3 دن میں قبر کی مٹی کہاں خشک ہوتی ہے مگر تخت کا سحر یہ سب نہیں دیکھتا۔ 11 دسمبر 1753ء منگل کی شب، امیروں نے کٹھ بلایا اور فیصلہ کرکے میاں نور محمد کے بڑے بیٹے محمد مرادیاب خان کو سندھ کا نیا حاکم مقرر کیا، مگر جب تک افغانستان سے حکومت کرنے کے لیے پروانہ جاری نہ ہوتا تب تک مرادیاب بطور حاکم نہیں مانا جاتا۔
اب پروانہ جاری کرنے کے لیے لین دین تو کرنی پڑتی ہے اور لین دین کچھ اس طرح سے ہوئی کہ دیوان گدومل نے وکیل کی حیثیت سے قندھار حکومت سے بات کی۔ پہلے سے زیادہ خراج دینے کا وعدہ کیا گیا، تحفے تحائف کے اونٹ لد کر افغان بادشاہ کے لیے پہنچے اور بات اتنے پر ہی نہیں رُکی بلکہ ضمانت کی بھی مانگ کی گئی۔
دیکھتی آنکھوں، چلتی سانسوں، رگوں میں بہتے خون اور سوچتے دماغ سے اچھی ضمانت اور کیا ہوسکتی تھی۔ اس لیے ضمانت کے طور پر میاں عطر خان کو قندھار حکومت کو سونپ دیا گیا اور جب یہ لین دین کا عمل مکمل ہوا تو مرادیاب خان کے نام پر سندھ حکومت کا پروانہ جاری ہوا اور قندھار سرکار نے ’سر بلند خان‘ کے خطاب سے نوازا۔ مگر 2، 3 برس سے زیادہ میاں سے حکومت کی گاڑی نہیں چل سکی یا چلنے نہیں دی گئی یہ ایک الگ بحث ہے جس پر کسی اور وقت بات کریں گے۔
سندھ کے امیروں کا 29 اگست 1757ء پیر کے دن ایک بار پھر کٹھ ہوا اور فیصلہ یہ ہوا کہ اب میاں غلام شاہ کلہوڑو کو تخت پر بٹھایا جائے۔ میر علی شیر قانع لکھتے ہیں کہ ’اسی رات محمد مرادیاب خان کی حویلی کا گھیراؤ کیا گیا اور سندھ کے حاکم کو اُس کے بیٹوں سمیت گرفتار کرلیا گیا اور پہلی بار میاں صاحب سندھ کے تخت پر بیٹھا‘۔
اگر قسمت تھی بھی تو میاں غلام شاہ کا قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ کیونکہ ستمبر 1757ء میں زوردار بارشیں ہوئیں اور دریائے سندھ کی تغیانی میاں غلام شاہ کی رہائش مراد آباد کو بہا کرلے گئی۔ میاں صاحب وہاں سے نکل کر اپنے والد کی رہائش ’محمد آباد‘ کے قریب اپنی نئی بستی ’الھ آباد‘ بسا کر وہاں رہنے لگے۔ غلام شاہ کی تخت نشینی کو کچھ امیروں نے قبول کیا کچھ نے نہیں کیا اور حالات بگڑنے لگے۔ عطر خان جو قندھار میں تھا اُس نے بھی غلام شاہ کی مخالفت کی اور افغان سرکار سے اپنے نام کا پروانہ حاصل کیا اور سندھ کے لیے نکل پڑا۔ میاں غلام شاہ کی چند مہینوں کی حکومت رہی اور حالات کو مناسب نہ سمجھتے ہوئے وہ 8 دسمبر 1757ء کو تھر کی طرف چلا گیا اور یوں سندھ کی حکومت میاں عطر خان کے حوالے ہوئی۔
میاں غلام شاہ تھر سے گزرتا ہوا اُدے پور چلا گیا وہاں سے جودھ پور اور بیکانیر سے گزرتا ہوا بہاول پور پہنچا اور یہاں 3 ماہ رہ کر عطر خان سے جنگ کی تیاری کرتا رہا۔ ’تحفتہ الکرام‘ کی تحریر کے مطابق، مئی 1758ء میں وہ بہاول پور سے نکلا اور مئی کے آخر میں روہڑی کی آبادی سے باہر ’امرکس‘ نامی نہر کے کنارے (یہ نہر ایک گٹر نالے کی صورت میں اب بھی موجود ہے) دونوں میں جنگ ہوئی جس میں میاں غلام شاہ کی جیت ہوئی۔ عطر خان کی 6 ماہ کی حکومت ختم ہوئی اور غلام شاہ دوسری بار عید کے دن یعنی 1 شوال 1171ھ یا بدھ 7 جون 1758ء میں سندھ کا حاکم بنا۔ وہ 6، 7 ماہ سے زیادہ حکومت نہیں کرسکا، کیونکہ عطر خان نے احمد شاہ ابدالی کو اپنے حاکم ہونے کے لیے راضی کرکے اُس کی پوری توجہ اور مدد حاصل کرلی اور پروانہ حاصل کرلیا۔
’قانع‘ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’دسمبر 1758ء (ربیع الثانی 1172ھ) میں محمد عطر خان کی دوسری بار حکومت کا دور شروع ہوا مگر اس کے ساتھ افراتفری اور لُوٹ مار کا عذاب پورے ملک پر نازل ہوا۔ افغان عمل دار ہر جگہ لوٹ کھسوٹ میں مصروف رہے، ملک کے ایسے دِگرگُوں حالات دیکھ کر مغرب کی طرف کے جوکھیہ قبائل کے لوگوں نے ننگر ٹھٹہ پر دن دیہاڑے ہلہ بول دیا اور گھروں میں گھُس کر لوٹ کھسوٹ کی‘۔
میاں غلام شاہ، عطر خان کو پروانہ ملنے کا سن کر جنوبی سندھ میں گُجو کی جانب آیا۔ وہاں ایک پرانے قلعے کو نئے سرے سے تعمیر کروایا اس کا نام ’شاہ گڑھ‘ رکھا اور اس کے ساتھ ’شاہ بندر‘ بھی تعمیر کروایا۔ ان حالات سے ایسا لگتا ہے کہ جنوبی سندھ پر میاں کا سیاسی اثر کچھ زیادہ ہی تھا، کیونکہ قلعہ بنوانا، بندر کی تعمیر یہ عمل ان اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ عطر خان کو بھی کچھ ایسا ہی لگا اس لیے اس نے جنوبی سندھ پر اپنا اثر قائم رکھنے اور میاں کو وہاں سے بھگانے کے لیے جنگ کی تیاری کی مگر کچھ صلاح کاروں نے عطر خان کو جنگ سے روکا اور بات چیت کرنے پر زور دیا۔
بات چیت ہوئی تو سندھ کو 2 انتظامی حصوں میں بانٹا گیا۔ شمال عطر خان کے پاس اور جنوبی سندھ شاہ بندر سے شمال مشرق میں نصرپور تک اور شاہ بندر سے شمال مغرب تک یعنی ننگر ٹھٹہ تک میاں غلام شاہ کو ملا۔ اس طرح دونوں بھائیوں کو تیسری بار سندھ پر حکومت کرنے کا موقع ملا۔
جب قندھار سرکار نے عطر خان کو سندھ پر حکومت کرنے کے لیے پروانہ دیا تھا تب احمد یار خان (مرادیاب خان کا بھائی) کو اپنے پاس شخصی ضمانت کے طور پر رکھا تھا۔ جب اُس کو پتا چلا کہ سندھ پر 2 حاکم ہیں تو اُس نے افغان سرکار کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا شاید خراج دینے کی عطر خان سے بھی زیادہ پُرکشش تصویر دکھائی ہوگی۔ افغان سرکار کے لیے یہ ایک تماشا تھا۔ کوئی بھی حاکم ہو لیکن اُس کے خزانے میں مال آتا رہے اور جو زیادہ دے گا پروانہ اُس کے نام کا نکلے گا۔
اس طرح احمد یار خان تخت کے خواب دیکھتا دن رات ایک کرکے سندھ کی جانب روانہ ہوا۔ جنوبی سندھ پر حکومت کے دوران میاں نے بڑی سنجیدگی سے اپنی سیاسی طاقت کو بڑھایا اور ایک ترتیب اور طاقت کے ساتھ مئی 1759ء میں پورے سندھ کا حاکم بنا۔ عطر خان نے بھاگ کر اپنی جان بچائی، احمد یار خان کے خوابوں کے درختوں پر حقیقت کا شیریں پھل لگنے سے پہلے ہی وہ بے رنگ ہوگیا۔ وقت نے اپنا پانسہ پلٹا اور تخت کی ڈولتی کشتی آخرکار کنارے پر آلگی اور وقت نے میاں غلام شاہ کے نصیبوں کے ہاتھوں میں ایک طویل مدت تک حکومت کرنے کا پروانہ تھمادیا۔
سندھ کی تاریخ میں کلہوڑا دور اور اس میں میاں غلام شاہ کلہوڑو کی حکومت بہت سارے واقعات کے حوالے سے اپنی ایک الگ تاریخ رکھتی ہے۔ ایچ ٹی سورلی لکھتے ہیں کہ ’1756ء سے 1758ء تک سندھ کے حالات انتہائی دگرگوں تھے جب تک 1759ء میں غلام شاہ نے ایک فاتح کی حیثیت سے ملکی سیاست کی باگ ڈور نہ سنبھال لی۔ اسی کے زمانے میں کمپنی نے دوسری بار اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کیں‘۔
کلہوڑا دور کی اہمیت، ان دنوں کے نظامِ آب پاشی اور غلام شاہ کے زمانے میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی اہم اور الگ رہی ہے۔ اس حوالے سے ایم ایچ پنوھر لکھتے ہیں کہ ’کلہوڑوں نے 1701ء سے 1754ء تک 800 نئی نہریں بنائی تھیں اور پرانی نہروں کو بہتر کیا تھا۔ یہی ان کی کامیابی کا راز تھا کہ انہوں نے زراعت کو اہم سمجھا اور اس پر عملی کام بھی کیا۔
لئمبرک صاحب کے مطابق وہ 30 لاکھ ایکڑوں پر کھیتی باڑی کرتے تھے، جبکہ ڈاکٹر ایس پی چھبلانی کے مطابق یہ تعداد 21 لاکھ ایکڑ تک تھی۔ جب 1757ء میں یہاں ہونے والی کھیتی اپنے عروج پر تھی ان دنوں سندھ کی آبادی 30 لاکھ تک ضرور پہنچ چکی تھی۔ ان ہی برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریائے سندھ نے اپنے قدیم راستے تبدیل کرنا شروع کیے تھے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دریاؤں کے بہاؤ میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے 1756ء سے دریائے سندھ میں تبدیلی آنے لگی اور 1758ء میں دریا نے اپنا نیا بہاؤ، ہالا سے حیدرآباد کے مغرب سے بنایا اور پرانا بہاؤ جو ہالا سے اڈیرو لال، نصرپور، شیخ بھرکیو، پرانی بدین اور رحمکی بازار سے کوری کریک تک جاتا تھا اس کو چھوڑ دیا۔ اس تبدیلی کی وجہ سے 500 سے زیادہ نئی نہریں ہالا سے اوپر اور مغرب میں جاری ہوئیں جبکہ اتنی ہی نہریں ہالا سے نیچے جنوب اور مشرق میں خشک ہوئیں۔ اس کی وجہ سے آب پاشی پر ہونے والی زراعت جو 20 لاکھ ایکڑ پر تھی وہ گھٹ کر 10 لاکھ ایکڑ ہوگئی’۔
کامیابیوں کا سفر شروع ہوتا ہے تو ایک زمانہ ساتھ چل پڑتا ہے کہ کامیابی کی ٹھنڈی اور شیریں چھاؤں میں بیٹھنا کسے اچھا نہیں لگتا، خاص کر جب انسان تخت و تاج کا مالک ہو تو پھر تو میلے ہوتے ہیں۔ اس لیے افغان سرکار جو پہلے غلام شاہ کی دشمن تھی اور اپنے رویے میں تلخی رکھتی تھی، اُس تلخی کی جگہ شہد ٹپکنے لگا اور میاں غلام شاہ کو اعزازات دیے گئے۔
افغان ابدالی سرکار نے غلام شاہ کو 2 خطابات عطا کیے۔ پہلا خطاب ’ہزیر جنگ شاہ ویردی خان‘ تھا جو 1761ء میں ملا جبکہ خطاب کے ساتھ ایک ہاتھی اور ساتھ میں تحفے تحائف بھی ملے تھے۔ دوسرا خطاب ’صمصام الدولہ‘ تھا یہ تب ملا جب غلام شاہ نے نیا ’شاہ پور‘ (سکرنڈ کے قریب) آباد کیا تھا۔ ان دنوں قندھار دربار میں دیوان گدومل سفیر تھا۔
اپنے دورِ حکومت میں میاں صاحب کی یہ بڑی تمنا اور کوشش رہی کہ وہ سندھ کی سرحدوں کو وسعت دے اور اس نے ایسا کیا بھی۔ اگر تاریخ کے صفحات سے ہم رجوع کریں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ 1736ء میں جب پہلی بار ٹھٹہ کلہوڑوں کے حوالے ہوا تو اُنہوں نے سمندر کے کناروں پر اپنے کنٹرول کو بہتر کیا، مگر نادر شاہ نے جب سندھ پر چڑھائی کی تو اس میں کَچھ کے راجاؤں نے سیاسی مدد کی۔ انہیں اس عمل کی سزا تب ملی جب میاں حکومت میں آئے اور کَچھ پر 2 بار حملے کیے۔ ’قانع‘ کے مطابق ’میاں 28 اکتوبر 1762ء کو پہلی بار کَچھ پر کامیاب حملہ کرنے کے بعد 17 جنوری کو شاہ پور واپس پہنچا‘۔
جیمس برنس ہمیں کچھ زیادہ تفصیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’میاں غلام شاہ پہلے کامیاب حملے کے بعد جب سندھ واپس روانہ ہوا تو کَچھ کے لکھپت بندر پر اپنی فوج کے 5 ہزار سپاہی مقرر کر کے آیا تھا۔ لکھپت کے قریب دریائے سندھ کے مشرقی بہاؤ کی نہر بہتی تھی جس سے کَچھ کی زراعت وابستہ تھی اور کَچھ سرکار کو دھان کی فصل سے 8 لاکھ کوڑیوں کی آمدنی ہوتی تھی، اُس نہر کو میاں نے بند کروادیا جس سے کَچھ کو مشکل دن دیکھنے پڑے اور زرعی زمین سیم و تھور میں بدل گئی‘۔
کَچھ پر دوسرا حملہ اکتوبر 1764ء میں کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ کَچھ کی زمین پر میاں صاحب کا عتاب اس وقت ختم ہوا جب کَچھ کے رائے خاندان کی ’رائے ویسو‘ نامی لڑکی (جس کو 1764ء میں میاں کے نام کردیا گیا تھا) سے 1770ء میں میاں صاحب کی شادی ہوئی۔ اس شادی کے بعد لکھپت اور بُستا بندر کَچھ کے رائے خاندان کو واپس کیے گئے۔ محترم اعجازالحق قدوسی لکھتے ہیں کہ ’میاں غلام شاہ نے اپنے دور حکومت میں ملک کے امن و امان کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ اہلیانِ ملک کی خوشحالی پر توجہ دی، نئے شہروں کی تعمیر کی، داؤد پوتوں سے اُچ شہر اور سبزل کوٹ کو سندھ کی سرحدوں میں شامل کیا۔ اسی طرح کراچی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کو خان قلات بروہی سے لےکر سندھ کی حکومت کو وسیع تر کردیا‘۔
1764ء میں میاں جب کَچھ سے واپس لوٹا تو عطر خان اپنی سیاسی یتیمی کو مان کر میاں کے پاس آیا اور اس کی بادشاہت کو قبول کر لیا۔ میاں نے بھی اسے عزت دےکر گلے لگایا اور یوں دونوں کی آپسی جنگوں کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
سیاسی حوالے سے یہ وہ دن تھے جب غلام شاہ کلہوڑو کی بادشاہت کا سورج عروج پر تھا۔ یہاں تک کہ اکثر محفلوں میں وہ یہ بھی کہتا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ وہ احمد آباد پر حملہ کرکے اُسے فتح کرے گا۔ بہرحال میاں کا یہ خواب تو پورا نہیں ہوا البتہ ایک محفل میں حیدرآباد کا قلعہ تعمیر کرنے سے متعلق بات چیت ہوئی تو وہ خواہش ضرور پوری ہوئی۔
’تاریخ بلوچی‘ کے مصنف عبدالمجید جوکھیو بکھری لکھتے ہیں کہ ’غلام شاہ کلہوڑو نے اپنے مشیروں سے مشورہ کیا کہ ہماری نسلوں نے اتنے برس حکومت کی ہے مگر کسی نے کوئی ایسا کوٹ یا قلعہ نہیں بنوایا جوکہ یادگار بھی ہو اور مشکل دنوں میں کام بھی آئے۔ مجلس میں سب نے بات سُنی اور اتفاق کیا پھر قدیم قلعہ نیرون کوٹ کے آثاروں سے متعلق بات ہوئی۔ میاں صاحب نے ایک شکار کے دوران پہاڑی پر وہ آثار دیکھے تھے اور وہ جگہ اسے پسند بھی آئی تھی۔ قلعے کی تعمیر کا آغاز ہوا اور اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ قلعے کے بیچ میں ایک اینٹوں سے بنا مینار اَلوند جبل (ایران میں ہمدان کے قریب ایک بلند پہاڑ کا نام) کی طرح تعمیر کیا گیا اور اس مینار کے چاروں جانب توپیں رکھی گئیں اور اس قلعے کا نام ’حیدرآباد‘ رکھا گیا‘۔
قانع ہمیں بتاتے ہیں کہ ’قلعہ مکمل ہوا تو قلعے کے سامنے پہاڑیوں پر شہر تعمیر کرکے وہاں لوگوں کو بسایا گیا۔ میاں غلام شاہ جب ڈیرہ غازی خان سے واپس لوٹا تو اس نے اس قلعے میں رہائش اختیار کی‘۔
ہیگ لکھتے ہیں کہ ’اس صدی میں دریا نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور مشرقی طرف والا اپنا پرانا راستہ چھوڑ کر 100 میل مغرب کی طرف جا کر بہنے لگا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو شاید حیدرآباد کا قلعہ بھی نہیں بنتا۔ کیونکہ پُھلیلی کے نئے بہاؤ کی وجہ سے غلام شاہ کلہوڑو نے اس کے قریبی پہاڑیوں پر یہ قلعہ بنانے کا سوچا کیونکہ اس سے پہلے کلہوڑوں یا میاں نے جو بھی دارالحکومت قائم کیے تھے انہیں دریائے سندھ کا بہاؤ بہا کرلے گیا تھا۔ یہ قلعہ کلہوڑا دور کی بڑی تعمیرات میں سے ایک تھا‘۔
اس قلعے کی تعمیر مکمل ہونے کے 29 برس بعد جب 1799ء میں ناتھن کرو کراچی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بیوپاری کوٹھی کھولنے کی اجازت لینے کے لیے تالپور حاکموں کے پاس یہاں آیا تو اس نے دفاعی حوالے سے حیدرآباد قلعے کی تعریف کی۔ اس نے لکھا کہ ’ٹھٹہ سے حیدرآباد تک پانی کے راستے (دریائے سندھ پر) کا سفر شاندار ثابت ہوگا۔ ٹھٹہ سے فوج خشکی کے راستے سے بھی حیدرآباد کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ مگر جس جزیرے پر حیدرآباد کا قلعہ بنا ہوا ہے وہ دریا (کوٹری بندر) کے کناروں سے 6 میل دُور ہے۔ وہاں پہنچنا مشکل ہے۔ ایک تو راستہ خراب ہے اور دوسرا حیدرآباد کے قریب دریائے سندھ کو پار کرنا مشکل ہے کیونکہ یہاں اس کا پاٹ ایک میل پر محیط ہوتا ہے جہاں امیر کسی بھی فوج کے اترنے سے پہلے کناروں پر اپنی فوج کے ساتھ تیار کھڑا ہوگا‘۔
1768ء میں اس قلعے کی بنیاد رکھی گئی، 1770ء میں یہ مکمل ہوا اور میاں نے یہاں رہائش اختیار کی۔ مگر اس شاندار اور پرسکون قلعے میں وہ زیادہ عرصہ نہیں گزار سکا۔ 1772ء کے اگست کے مہینے میں اُس پر فالج کا حملہ ہوا اور دوسرے دن اس کی سانسوں نے اس کے وجود کا ساتھ چھوڑ دیا۔ میاں کو قلعے کے شمال میں دفن کیا گیا اور قبر پر نہایت شاندار مقبرہ تعمیر کیا گیا۔
میں نے اس شان دار مقبرے کو پہلی بار 1998ء میں دیکھا تھا۔ تب وہاں تک پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی تھی مگر 24 برس کے بعد جب میں سٹی گیٹ ہوٹل پہنچا جس کو توڑا جارہا تھا تو جیل روڈ سے مغرب کی طرف کچھ آگے جاکر میں نے ایک پھل کی ریڑھی والے سے میاں غلام شاہ کلہوڑو کے مقبرے کے متعلق پوچھا تو وہ کچھ نہیں بولا بس انکار میں سر ہلایا۔ 2، 3 ریڑھی والوں سے ایسے ہی جواب ملا۔ پھر ایک ریڑھی آئی اور ریڑھی کے کنارے کھڑے آدمی نے میری بات سُنی اور راستہ سمجھاتے ہوئے یہ بھی سمجھایا کہ، یہاں یہ مقبرہ ’مچھلی والے بابا‘ کے نام سے مشہور ہے۔
ہم جب مچھلی والے بابا (میاں غلام شاہ کلہوڑو) کے مقبرے پر پہنچے تو یہاں مچھلی کی ہلکی سی خوشبو تھی جو مقبرے کے آنگن میں پہنچ کر محسوس ہوتی ہے۔ شام کا وقت تھا کچھ عورتیں تھیں جو بھاپ پر پکی مچھلی دوسرے آئے ہوئے لوگوں کو خوراک کے لیے بانٹتی تھیں کہ اُمیدیں اور تمناؤں کے جہان کو ایک تسکین چاہیے۔ یہ یقیناً ایک شان دار مقبرہ ہے۔ 1998ء میں جب میں نے دیکھا تھا تب اس کے کوٹ کی دیواروں کی حالت انتہائی خستہ تھی اور مقبرہ بھی۔ مگر اب انڈومنٹ فنڈ والوں نے اس مقبرے کی چاریواری (کوٹ) اور مقبرے کی نئے سرے سے تعمیر و تزئین کی ہے۔
ایک شاندار بادشاہ کی یہ یقیناً شاندار آرام گاہ ہے۔ مقبرے کے آگے باغیچہ ہے اور آپ اگر مقبرے کے جنوب میں دیکھیں تو اینٹوں کے چھوٹے چھوٹے گھروندے بنے ہوئے ہیں۔ یہ ذلتوں کے مارے لوگوں کی زندگی کی وہ تشنگیاں ہیں جن کی اُمیدوں کو پانی کبھی نہیں ملتا مگر محروم وجود ان کو کسی نہ کسی کیفیت میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں کہ زندگی ان تمناؤں کے بغیر گزارنا بڑا مشکل ہے۔
متوسط طبقے سے جو نچلا طبقہ ہے زندگی ان کے لیے انتہائی کٹھن ہے۔ یہاں دن اور رات تو یقیناً گزرتے ہیں مگر سُکھی لوگوں کی طرح نہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ صبح کب ہوئی اور شام کب ہوئی۔ یہاں ان بے چاروں سے تو حیات کا ایک ایک پل ان کی روح کو جھنجھوڑتا ہے کہ صبح تو ہوگئی مگر رات ہونے تک یہ گزرے گی کیسے؟
اگر دیکھا جائے تو یہ ایک حاکم کا مقبرہ ہے۔ نہ کسی صوفی نہ کسی ولی اللہ کا۔ مگر زندگی کے ستائے لوگ کہاں جائیں؟ وہ سمجھتے ہیں کہ جس کا یہ مقبرہ ہے، وہ یقیناً عام آدمی تو نہیں ہوگا۔ اور اگر عام آدمی نہیں تو یقیناً بڑا آدمی ہوگا۔ اور بڑے آدمی کے آگے تو ضرور ہاتھ پھیلانا چاہیے کہ وہ کبھی نہ کبھی ضرور کچھ نہ کچھ تو دے ہی دے گا۔
ہم کتنی محروم اور معصوم قوم ہیں! یہ سب دیکھ کر انسان ہونے پر رحم آنے لگتا ہے۔ اور آنکھوں میں جب یہ دیکھ کر نمک بھرے پانی کی تہہ آجائے تو سامنے والا منظرنامہ دھندلا سا پڑ جاتا ہے۔
ہمارے بس میں بس اتنا ہی ہے!
حوالہ جات
- ’تاریخ سندھ‘۔ اعجازالحق قدوسی۔ 2014ء۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی
- ’تحفتہ الکرام‘۔ میر علی شیر قانع۔ مترجم: مخدوم امیر احمد۔ 2011ء، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
- ’تاریخ کلہوڑا‘۔ غلام رسول مہر۔ مترجم: شمشیرالحیدری۔ 2016ء، سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
- ’سندھو گھاٹی اور سمندر‘۔ ابوبکر شیخ۔2022ء، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’تاریخ بلوچی‘۔ عبدالمجید جوکھیو بکھری۔ مترجم: ڈاکٹر عبدالرسول قادری۔ 2017ء۔ ڈاکٹر نبی بخش ریسرچ فاؤنڈیشن، حیدرآباد
- ’بھٹ جو شاہ‘۔ ایچ۔ ٹی۔سورلی۔ مترجم: عطا محمد بھنبھرو۔ 2012ء۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی ’سندھ جو مشاہدو‘۔ ناتھن کرو۔ 2021ء۔ کلچر ڈپارٹمنٹ سندھ، کراچی