آئل کمپنیوں نے حکومت کو ممکنہ بحران سے خبردار کردیا
ملکی کرنسی کی قدر میں حالیہ بڑی کمی اور مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کے بعد غیر ملکی زرمبادلہ کے حوالے سے رکاوٹوں اور قیمتوں کے تعین کے مروجہ طریقہ کار کی وجہ سے ملک کی تیل کی صنعت مبینہ طور پر خام اور پیٹرولیم مصنوعات کا انتظام کرنے میں شدید مشکلات کا شکار ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تین درجن سے زیادہ بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) اور ریفائنریز کی ایسوسی ایشن آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) نے ان چیلنجز سے خبردارکرتے ہوئے حکومت کو سپلائی چین میں بڑے ممکنہ خلل سے خبردار کردیا ہے۔
وزیر خزانہ، وزیر توانائی، گورنر اسٹیٹ بینک اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے چیئرمین کو لکھے خط میں ایسوسی ایشن نے روپے کی قدر میں کمی کے سخت اثرات سے نمٹنے کے لیے فوری نوٹس لینے کی ضرورت پر زور دیا۔
آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نے اپنے بیان میں کہا کہ تیل کمپنیاں توانائی اور خزانہ کی وزارتوں سے مصنوعات کی قیمتوں میں غیر ملکی زرمبادلہ کے نقصانات کی مکمل وصولی کے لیے شفاف طریقہ کار وضع کرنے کی درخواست کر تی رہی ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر موجودہ شرح مبادلہ کی بنیاد پر قیمتوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے، اگر اس چیلنجنگ صورتحال میں یہ ممکن نہیں تو کم از کم فوری طور ایک نظام ضرور وضع کیا جائے۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 20 روپے کی حالیہ بڑی کمی نے موجودہ لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) لائنز کو صنعت کے لیے ناکافی بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں شدید خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ خام تیل اور تیار پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں خلل پڑ سکتا ہے۔
صنعت نے خبردار کیا اور تشویش سے آگاہ کیا کہ منظور شدہ ایل سی کھولنے کی لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے جس سے صنعت کے منافع پر منفی اثر پڑھ رہا ہے جب کہ اس لاگت کو قیمتوں میں شامل نہیں کیا گیا۔
ایسوسی ایشن نے کہا کہ اسے غیر ملکی زرمبادلہ میں کمی، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کے ریٹ میں اضافے کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے، خاص طور پر ہائی اسپیڈ ڈیزل کی مد میں حالیہ مہینوں میں قریباً 35 ارب روپے کے مجموعی نقصانات ہوئے۔
اس نے رپورٹ کیا کہ یکم جنوری 2022 سے 2 مارچ کے درمیان پیٹرول کی عالمی قیمت 3 فیصد بڑھ کر 94 ڈالر فی بیرل ہوگئی، اسی طرح ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں بھی 18 فیصد اضافہ ہوا جب کہ اسی دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 61 فیصد سے زیادہ کی کمی ہوئی۔
قیمتوں میں اس فرق کی وجہ سے تیل کی صنعت کے لیے گزشتہ سال کے مقابلے اتنی ہی مقدار میں ڈیزل در آمد کرنے کے لیے 90 فیصد زیادہ اخراجات کی ضرورت ہے۔
اس لیے تیل کمپنیاں حکومت سے فوری مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اس سلسلے میں فوری اقدامات کو یقینی بنائے۔