• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

عمران خان اور رانا ثنااللہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواستیں مسترد

شائع March 7, 2023
رجسٹرار آفس نے علاقائی دائرہ اختیار کی بنیاد پر پٹیشن کو برقرار رکھنے پر اعتراض کیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
رجسٹرار آفس نے علاقائی دائرہ اختیار کی بنیاد پر پٹیشن کو برقرار رکھنے پر اعتراض کیا تھا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ نے عدلیہ کے خلاف مبینہ مہم چلانے پر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواستیں مسترد کر دیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس شجاعت علی خان نے عدلیہ کے خلاف مبینہ مہم چلانے پر سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست پر رجسٹرار آفس کا اعتراض برقرار رکھا۔

ایڈووکیٹ ندیم سرور نے اپنی درخواست میں استدعا کی تھی کہ سابق وزیراعظم اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر سابق ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دینے کے بعد سے ججز اور عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سے برطرفی کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین جب بھی کسی عدالت میں پیش ہوئے تو ان کے کارکنوں نے عدالتوں کے باہر ریلیاں نکالیں اور سرکاری املاک کو نقصان بھی پہنچایا۔

درخواست گزار نے اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس کی عدالت میں خان کی حالیہ پیشی کا حوالہ دیا جہاں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے امن و امان کی صورتحال میں بگاڑ پیدا کیا اور کمپلیکس کے مین گیٹ اور دیگر املاک کو نقصان پہنچایا۔

انہوں نے عدالت سے کہا کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے آرٹیکل 2 (سی) کے ساتھ آئین کے آرٹیکل 204 (2) (بی) کے تحت کارروائی شروع کی جائے۔

تاہم رجسٹرار آفس نے علاقائی دائرہ اختیار کی بنیاد پر پٹیشن کو برقرار رکھنے پر اعتراض کیا تھا، جسٹس شجاعت علی خان نے رجسٹرار آفس کے اعتراض کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے انٹرا کورٹ اپیل (آئی سی اے) کو خارج کر دیا، جس میں ان پر ججز اور عدلیہ کو بدنام کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

درخواست گزار ایڈووکیٹ شاہد رانا نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیر داخلہ نے حالیہ پریس کانفرنس میں سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کی مبینہ لیک آڈیو چلائی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ گفتگو ایک وکیل (عابد زبیری) اور ان کے مؤکل (پرویزالٰہی) کے درمیان ذاتی معاملہ تھا، جسے رازداری کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریکارڈ اور لیک کیا گیا۔

وکیل نے دلیل دی کہ وزیر داخلہ نے عدالت میں زیر التوا کیس پر بحث کے حوالے سے ایک وکیل کی اپنے مؤکل کے ساتھ گفتگو کی مبینہ آڈیو چلا کر عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔

درخواست گزار نے کہا کہ انہوں نے وزیر داخلہ کے خلاف کارروائی کے لیے رٹ دائر کی لیکن سنگل بینچ نے اسے خارج کر دیا۔

انہوں نے ڈویژن بنچ پر زور دیا کہ سنگل بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور وزیر داخلہ کو توہین عدالت کے قانون کے تحت سزا دے۔

دریں اثنا جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے وارنٹ گرفتاری کے خلاف درخواست واپس لینے کے بعد خارج کر دی۔

وزیر داخلہ کے وکیل نے بینچ کے سامنے دلیل دی کہ درخواست گزار کے خلاف مقدمہ بے بنیاد ہے اور اس کی سزا کا کوئی امکان نہیں ہے۔

جسٹس علی باقر نجفی نے مشاہدہ کیا کہ اگر درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کی سزا کا کوئی امکان نہیں ہے تو ان کو ٹرائل کورٹ کے سامنے بریت کی درخواست دائر کرنی چاہیے۔

وکیل نے عدالت سے درخواست واپس لینے کی اجازت طلب کی، بعدازاں بینچ نے درخواست واپس لیتے ہوئے خارج کر دی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024