• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

آخر کوئی کراچی کا بے اختیار میئر کیوں بننا چاہے گا؟

لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001ء سے لے کر حالیہ ترمیم تک ایسا لگتا ہے کہ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی مھدود ہوتی جارہی ہے۔
شائع March 7, 2023

مقامی حکومت کے نظام کا مقصد ایک محلے میں رہنے والے لوگوں کو درپیش مقامی مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔ اس نظام کی بنیاد یہ خیال ہے کہ آبادیوں اور اس کے رہائشیوں کے مسائل مذکورہ آبادیوں میں رہنے والے افراد ہی زیادہ بہتر طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔

عقل یہی کہتی ہے کہ ان حکومتوں کو ضروری اختیارات اور وسائل دے کر ہی نچلی سطح پر لوگوں کو بنیادی خدمات فراہم کرنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

تاہم ایسے معاملات میں عقل کا شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا ہے۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات 15 جنوری 2023ء کو ہوئے تھے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور 93 نشستیں حاصل کیں جبکہ جماعت اسلامی 86 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ پاکستان تحریک انصاف نے 41 نشستیں حاصل کیں اور تقریباً 11 نشستوں پر انتخابات نہیں ہوسکے اور کچھ نشستوں کے نتائج ابھی تک جاری نہیں ہوئے۔

انتخابات کے ساتھ ہی جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف نے پاکستان پیپلز پارٹی پر نتائج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا اور کچھ حلقوں میں دوبارہ گنتی کے لیے الیکشن کمیشن کو درخواستیں بھی جمع کروائیں۔ سیاسی جماعتوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ 8 نشستیں پیپلز پارٹی کو ’دی گئی‘ تھیں۔

اسی افراتفری کے درمیان شہرِ کراچی میئر کے انتخاب کا منتظر ہے۔ چونکہ مقامی حکومت کے انتخابات میں کسی بھی جماعت کو کراچی میں واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے اس لیے نتائج کا انحصار جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعاون اور اتحاد پر ہے۔

لیکن کراچی کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک اسے ایک لگن سے کام کرنے والا اور مخلص میئر نہیں مل جاتا جو اپنے آپ کو شہر کے لیے وقف کرسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظام کچھ اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ لگن اور خلوص کے بغیر شہر کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا اور موجودہ صورتحال میں شہر کو اس طرح چھوڑا بھی نہیں جاسکتا۔

آئین کا آرٹیکل 140 اے

آئین میں 18ویں ترمیم کا مقصد اقتدار کی مرکزیت کو کم کرنا اور اختیارات کو وفاقی حکومت سے صوبائی اور پھر میونسپل یا مقامی حکومتوں کو منتقل کرنا تھا۔ تاہم اس کے بعد سے اب صوبائی حکومتیں تر جیحاً ان کاموں کو اپنے زیر نگرانی رکھتی ہیں جنہیں مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت ہونا چاہیے، ان میں مختلف بلدیاتی امور بھی شامل ہیں۔

مزید یہ کہ آئین کا آرٹیکل 140 اے وسیع پیمانے پر مقامی حکومتوں کے نظام کے بارے میں بات کرتا ہے کہ ’ہر صوبہ قانون کے ذریعے مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داری اور اختیارات مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کر دے گا‘۔

آئین کے آرٹیکل 32 میں کہا گیا ہے کہ ’مملکت متعلقہ علاقوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ایسے اداروں میں کسانوں، مزدوروں اور عورتوں کو خصوصی نمائندگی فراہم کی جائے گی‘۔

آرٹیکل 140 اے کے الفاظ بیان کرنے کی وجہ آپ کو یہ دکھانا ہے کہ آئین میں بلدیاتی نظام کی مالی اور انتظامی آزادی کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اور 2013ء میں منظور ہونے والے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ اور 2021ء کی ترامیم کے مطابق جو قانون لاگو کیا جارہا ہے اس میں واضح تضاد ہے۔

مقامی حکومت کے انتظامی اختیارات

سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء (ایس ایل جی او 2001ء) کو دیکھا جائے تواس میں موجودہ صورتحال سے بالکل مختلف انتظامی ڈھانچہ پیش کیا گیا ہے۔کیونکہ اُس وقت کراچی کو ایک ضلع سمجھا جاتا تھا اور اسے 18 ٹاؤن میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ اس کی سربراہی ایک ’ناظم‘ (میئر) کے ذمے تھی اور مقامی حکومت کو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی (سی ڈی جی کے) کہا جاتا تھا جبکہ کمشنری نظام کو ختم کردیا گیا تھا۔

2013ء میں سندھ حکومت نے انتظامی اختیارات کی تقسیم کے لیے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء (ایس ایل جی او 2001ء) کے قانون میں ترامیم کیں جو سندھ لوکل گورنمنٹ امینڈمنٹ، 2013ء (ایس ایل جی اے 2013ء) کے نام سے جانی گئیں۔ اس کے مطابق میئرکو شہر کی بلدیہ عظمٰی کا سربراہ کہا گیا اورضلعی بلدیہ عالیہ کے سربراہ کو چیئرمین کہا گیا۔

اس کے علاوہ لوکل گورنمنٹ کمیشن خود صوبائی وزیر بلدیات کی سربراہی میں تھا اور بنیادی طور پر کمشنری نظام کو بحال کردیا گیا تھا جو صوبے کو بااختیار بناتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ایس ایل جی اے 2013ء نے میئر کے پاس بہت کم اختیارات چھوڑے۔

سندھ حکومت نے 2021ء میں ’ایس ایل جی اے 2013ء‘ میں ایک بار پھر ترامیم کیں اور سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2021ء متعارف کروایا۔ اس بل میں لفظ ’ضلع‘ کی جگہ ’ٹاؤن‘ لگا دیا گیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کراچی کو اب 25 ٹاؤنز میں تقسیم کیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ شہر کے 7 اضلاع برقرار رہیں گے۔ اس سے شہر بھر کے 7 ڈپٹی کمشنروں اور 31 اسسٹنٹ کمشنروں کے بمقابل 25 ٹاؤن میونسپل کمیٹیوں (ٹی ایم سی) اور ٹی ایم سی کے چیئرپرسن کے انتظامی اختیارات پر سوال اُٹھ جاتا ہے۔

  سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی)  بل، 2021ءکے مطابق کراچی کے 25 ٹاؤنز کا نقشہ— تصویر: کراچی اربن لیب
سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل، 2021ءکے مطابق کراچی کے 25 ٹاؤنز کا نقشہ— تصویر: کراچی اربن لیب

شہر میں میئر کا کردار

2001ء میں تمام بلدیاتی ادارے مقامی حکومت کے ماتحت تھے۔ سی ڈی جی کے یعنی کراچی کی ضلعی حکومت ایک بااختیار ادارہ تھا جس کے اختیار میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ تھا۔ کمشنری نظام نہ ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی بھی شہر کے ناظم اور 18 ٹاؤن ناظمین کے ماتحت کام کرتی تھی۔

تاہم ایس ایل جی اے 2013ء کے نفاذ کے ساتھ بہت سے محکمے شہر کی مقامی حکومت سے چھین لیے گئے اور یوں کراچی کے میئر کو انتہائی محدود اختیارات کے ساتھ چھوڑ دیا گیا۔ سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2021ء کے تحت ان اختیارات کو مزید محدود کردیا گیا جس کے بعد میئر کے پاس اب صرف چند کام ہی رہ گئے ہیں۔

ان کاموں میں سڑکوں کی تعمیر اور دیکھ بھال، کے ایم سی کے اسپتالوں اور کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا انتظام، قبرستان، پارکس، پارکنگ، عوامی بیت الخلا، کراچی چڑیا گھر، سفاری پارک، میٹروپولیٹین لائبریری، برساتی نالے، آگ بجھانے کا انتظام اور انسداد تجاوزات شامل ہیں۔ 2021ء کے بل کے تحت پرائمری تعلیم اور صحت کو بھی مقامی حکومتوں سے چھین لیا گیا۔ تاہم سیاسی جماعتوں کے احتجاج پر ان سے وعدہ کیا گیا کہ یہ محکمے شہری حکومت کے پاس ہی رہیں گے۔

  کراچی کی 25 ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز میں یونین کمیٹیوں کی تقسیم— تصویر: کراچی اربن لیب
کراچی کی 25 ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز میں یونین کمیٹیوں کی تقسیم— تصویر: کراچی اربن لیب

مقامی حکومت موثر انتظامیہ کی بنیاد ہے کیونکہ یہ براہ راست عام آدمی اور نچلی سطح سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے میئر کو سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ یا کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا صرف چیئرمین بنا دینا کافی نہیں ہے۔ اگر چیئرمین کے پاس کوئی اختیار یا بجٹ نہ ہو تو وہ کس طرح عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے کے احکامات دے سکتا ہے؟

ایک جانب آئین میئر کو بااختیار بنانے کی بات کرتا ہے تو دوسری جانب سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2021ء نے میئر کے عہدے کو بے اختیار کر دیا ہے۔ دیکھا جائے تو میئر کا دائرہ اختیار شہر کے تمام بلدیاتی محکموں پر ہونا چاہیے، چاہے وہ کچرے کا انتظام ہو یا پانی اور سیوریج کا، یا پھر بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی۔ اگر سندھ حکومت کئی محکموں کے چیئرمین لگا رہی ہے اور میئر کو ان کے ساتھ شریک چیئرمین لگا رہی ہے تو پھر اصل اختیار کس کے پاس ہوگا اور ادارے کے فیصلے اور عوام کے مسائل کون حل کرے گا؟

میئر اور ڈپٹی کا انتخاب

سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء کے مطابق، میئر اور ڈپٹی کا انتخاب صرف اور صرف ’شو آف ہینڈز‘ کے ذریعے کیا جاتا تھا یعنی اراکین ہاتھ اٹھا کر انتخاب میں حصہ لیں، لیکن 2013ء میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب سے عین قبل سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے ابتدائی مراحل میں اسے تبدیل کر دیا گیا اور انتخاب ’خفیہ رائے شماری‘ کے ذریعے کروانے کا فیصلہ ہوا۔ اس عمل سے نتائج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور رد و بدل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اس ترمیم کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں صوبائی حکومت کو حکم دیا کہ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات صرف اور صرف ’شو آف ہینڈ‘ کے ذریعے کروائے جائیں۔ سندھ حکومت نے جب سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ 2016ء منظور کیا تو عدالت کی ہدایات سے اتفاق کیا کہ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات صرف اور صرف ’شو آف ہینڈ‘ کے ذریعے کروائے جائیں گے۔ تاہم 2021ء میں کی جانے والی ترامیم میں عدالتی حکم کے باوجود خفیہ رائے شماری کے طریقے کو اختیار کرلیا گیا۔

2021ء کی ترامیم میں ایک اور مسئلہ اس کی اصطلاحات کا بھی ہے۔ سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2021ء کے مطابق، ’کونسل کسی بھی شخص کو میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین یا وائس چیئرمین منتخب کرے گی‘۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ ’ایوان میں موجود کوئی بھی فرد‘ کے بجائے ’کوئی بھی شخص‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس طرح ممکنہ طور پر غیر منتخب افراد کے لیے شہر کا میئر، ڈپٹی میئر اور ٹاؤن کا چیئرمین یا وائس چیئرمین بننے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ یہ مجوزہ شق آئین کے آرٹیکل 140 اے کے خلاف ہے جس میں واضح طور پر لفظ ’منتخب نمائندے‘ کا ذکر ہے۔

آئین کا تحفظ اور بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانا

2022ء میں سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو آرٹیکل 140 اے کے تحت آئین میں درج مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کا حکم دیا۔ عدالت نے یہ فیصلہ ایم کیو ایم کی جانب سے 2013ء میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں سنایا۔ اس درخواست میں سندھ میں مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے اور خودمختاری دینےکے لیے کہا گیا تھا۔ اس فیصلے نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کی شق 74 اور 75 کو کالعدم قرار دے دیا۔ شق 74 کے تحت صوبائی حکومت کو کسی بھی وقت مقامی حکومت کو تحلیل کرنے کا اختیار حاصل تھا اور شق 75 کے تحت مقامی حکومت کے دائرہ کار میں آنے والے کسی بھی ادارے کو صوبائی حکومت کے ماتحت شامل کرنے کا اختیار تھا۔ اگرچہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست سمت میں ایک بہت بڑا قدم ہے لیکن اس کے نفاذ کے سلسلے میں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 140 اے کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔ اس کے لیے صوبائی حکومت کو مقامی حکومتوں کے حوالے سے تحفظات کو دور کرنا ہوگا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کسی بھی وقت صوبائی حکومت مقامی حکومت سے بلدیاتی امور چھین نہ لے اور مقامی حکومت کے پاس عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے ضروری اختیارات اور وسائل موجود ہوں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک کوئی بھی اس شہر کا میئر بن جائے وہ بہرحال بے اختیار ہی ہوگا۔


یہ تحریر 16 فروری 2023ء کو ڈان پریزم پر شائع ہوئی۔

محمد توحید

لکھاری شہری منصوبہ ساز اور گیوگرافر ہیں۔ آپ آئی بی اے کراچی میں 'کراچی اربن لیب' سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر/ جی آئی ایس اینالسٹ وابسطہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔