توشہ خانہ کیس: ’لگتا نہیں عمران خان آج پیش ہوں گے‘، ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے تک سماعت میں وقفہ
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کی سماعت میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ ضمانت دینے والے پابند ہیں کہ عمران خان عدالت میں پیش ہوں، عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا۔
سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے کی جس کے دوران ان کے جونیئر وکیل عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
اس کے علاوہ محسن شاہنواز رانجھا اور الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
جج نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ عمران خان آج بھی نہیں پیش ہو رہے کیا؟ جس پر وکیل سردار مصروف خان نے بتایا کہ عمران خان کی پیشی کا مجھے معلوم نہیں لیکن قانونی ٹیم کچھ دیر کے بعد پیش ہوگی۔
جج نے مزید استفسار کیا کہ آپ کے پاس عمران خان کی کچہری کی پیشی کی کوئی معلومات نہیں؟
وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عمران خان کی سینئر قانونی ٹیم 10 بجے عدالت پیش ہوگی۔
عدالت نے دریافت کیا کہ عمران خان کے ضامن پیش نہیں ہوئے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ ضامن کو کیسے نوٹس کرسکتے ہیں؟ طریقہ کار مکمل نہیں ہوا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ ضمانت دینے والے پابند ہیں کہ عمران خان عدالت میں پیش ہوں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کی پیشی کا صبح صبح بتا دیا کریں، وقت کیوں ضائع کرتے ہیں۔
بعد ازاں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت میں 10 بجے تک وقفہ کردیاگیا۔
وفقے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو وکیل شیر افضل مروت عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ وکالت نامہ ایک دو دن تک دے دیتا ہوں، عمران خان کی قانونی ٹیم اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود ہے، وکیل شیر افضل مروت نے استدعا کی کہ اگلے ہفتے کی کوئی تاریخ دے دیں۔
جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کی طلبی کے لیے سماعت چل رہی ہے، وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ عمران خان کی صحت خراب ہے، معذوری کی حالت ہے، دنیا میں عمران خان کے حوالے سے تماشہ چل رہا ہے، اس دوران وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ضامن کو عدالت نوٹس کرے اور شورٹی کو منسوخ کیا جائے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے 9 مارچ تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔
وکیل محسن شاہنواز رانجھا نے مؤقف اپنایا کہ 9 مارچ کو عمران خان نے ہائی کورٹ پیش ہونا ہے، عمران خان یقینی طور پر 9 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ پیش ہوں گے، وکیل عمران خان نے کہا کہ مجھے بتایا گیا ہےکہ عمران خان کے لیے اگلے ہفتے کچہری پیش ہونا آسان ہوگا، جج نے ریمارکس دیے کہ یعنی دوسرے الفاظ میں عمران خان نے 9 مارچ کو بھی سیشن عدالت میں پیش نہیں ہونا۔
جج نے اعتراض کیا کہ آپ کا وکالت نامہ پہلے آنا چاہیے، بات بعد میں ہونی چاہیے، عمران خان کے وکیل نہیں آئے، کیا کریں اس کا؟ میں نے انتظار بھی اس لیے کیا کہ شائد اسلام آباد ہائی کورٹ کا کوئی فیصلہ آجائے گا، اگر صورتحال یہی رہنی ہے تو کوئی فیصلہ کر دیتے ہیں، عمران خان خود بھی ابھی تک ذاتی طور پر پیش نہیں ہوئے۔
جج نے عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت کو وکالت نامہ جمع کروانے کی ہدایت کی جس پر وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ 11 بجے عمران خان کی جانب سے وکالت نامہ دے دیتا ہوں، جج نے ریمارکس دیے کہ ظاہر ہو رہا ہے کہ عمران خان آج بھی سیشن عدالت پیش نہیں ہوں گے۔
محسن شاہنواز رانجھا نے کہا کہ میں نے عمران خان کے خلاف ریفرنس دائر کیا، چھ ماہ سے معاملہ چل رہا ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے کیس میں قانون سب کے لیے برابر ہوگا، قانون کے مکمل تقاضوں کو پورا کرکے توشہ خانہ کیس کو چلایا جائے گا، اس دوران عمران خان کے وکیل نے 2 بجے تک سماعت میں وقفہ کرنے کی استدعا کی جب کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے 9 مارچ تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی حاضری بھی اب تک نہیں ہوئی۔
وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ عمران خان پر وارنٹ جاری کیے، تب سے باہر تماشہ بنا ہوا ہے، جج نے ریمارکس دیے کہ کوئی کیس بتا دیں جو لمبے عرصے سے اس عدالت میں چلا ہو، عمران خان دیگر عدالتوں میں آئے لیکن سیشن عدالت نہیں آئے، عمران خان کی ہر بار حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی گئی ہے۔
اس موقع پر ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے 2 بجے تک سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے وکیل شیر افضل مروت کو اپنا وکالت نامہ جمع کروانے کی ہدایت کردی۔
وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت اور فیصل چوہدری اور مسلم لیگ (ن ) کے رہنما محسن شاہنواز رانجھا ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں پیش ہوئے، وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ عمران خان کے وارنٹ منسوخی پر اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردی گئی ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کے باعث ہی کیس کی سماعت میں وقفہ کیا تھا، دیکھ لیتے ہیں لیکن سوا تین بجے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کردیا جائے گا، وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ عمران خان کا سیشن عدالت میں نہ آنے کے پیچھے چند وجوہات تھیں، عمران خان نے متعدد بار کہا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کی جانب سے کہا گیا کہ سیشن عدالت جوڈیشل کمپلیکس شفٹ کردی جائے، وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ عمران خان جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائی کورٹ پیش ہو رہے ہیں، اسلام آباد کی ضلعی کچہری میں ماضی میں بھی حملہ ہو چکا ہے۔
محسن شاہنواز رانجھا نے کہا کہ وکالت کی بات ہو نہیں رہی، سیاست پر بات ہو رہی ہے، جج نے ہدایت کی کہ سیاست پر نہیں، صرف قانون پر بات کی جائے۔
وکیل شیرافضل مروت نے کہا کہ صورتحال بتا رہی کہ عمران خان پر اگر حملہ ہوا تو کچہری میں ہی ہوگا، عمران خان کی جان کو خطرے کے ساتھ ساتھ ججز، وکلا اور شہریوں کی جان کو بھی خطرہ ہے، عمران خان شتر مرغ کی طرح لندن سے باہر نہیں بیٹھا ہوا۔
اس دوران کمرہ عدالت میں محسن شاہنواز رانجھا اور عمران خان کے وکلا میں تلخ کلامی ہوئی۔
جج نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں بتائیں، سیکیورٹی کا انتظام کرنا میرا کام ہے، 9 مارچ کو توشہ خانہ کیس کی سماعت رکھ لیتے ہیں، سیکیورٹی کے انتظامات کے احکامات جاری کر دیتا ہوں، وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ بہت زیادہ امکانات ہیں کہ عمران خان پر کچہری میں پیشی کے دوران حملہ ہوسکتا ہے۔
محسن شاہنواز رانجھا نے کہا کہ عمران خان پولیس کو گرفتاری دے دیں، پولیس سیکیورٹی کے تحت انہیں سیشن عدالت لے آئے گی، عمران خان کو بکتر بند گاڑی میں لایا جاسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔
وفقے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے غیرمتعلقہ افراد کو عدالت سے باہر جانے کی ہدایت کی، عمران خان کے وکیل شیرافضل مروت نے سیکیورٹی رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔
جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان نے 9 مارچ کو ویسے بھی آنا ہے، آئی جی، وزارتِ داخلہ ، سب کو سیکیورٹی کے حوالے سے ہدایت دوں گا، اسلام آباد ہائی کورٹ اور جوڈیشل کمپلیکس میں عمران خان کی ضمانتوں کی سماعتیں ہیں، 9 مارچ کو تو عمران خان نے اسلام آباد آنا ہی ہے، توشہ خانہ کیس کو قانون کے مطابق چلایاجائےگا۔
وکیل شیرافضل مروت نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ چند دیر بعد وارنٹ منسوخی کی اپیل پر محفوظ فیصلہ سنا دےگی، وکیل فیصل چودھری نے کہا کہ عدالت سیکیورٹی کے حوالے سے متعلقہ اداروں سے پوچھ لے، جو سیکیورٹی ادارے دیں اس پر عدالت فیصلہ کرلے، کچہری میں سکیورٹی کی صورتحال پر تشویش سنجیدہ بات ہے، ایف آئی آر عمران خان پر درج ہو چکی ہیں، صبح اٹھتے ہیں ایک نیا پرچہ ہوا ہوتا ہے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ جب تک سکیورٹی انتظامات کی تفصیلات فراہم نہیں کرتے اس وقت ہم کیسے بات کر سکتے ہیں، عدالت نے کہا کہ ساڑھے تین بج گئے ہیں ہم اس وجہ سے رکے ہوئے ہیں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے جب تک ہائیکورٹ کا فیصلہ نہیں آتا، وکیل شیرافضل مروت نے کہا کہ 9 مارچ کو عمران خان کی پیشی سیشن عدالت رکھ لیں لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے سے مشروط کرکے۔
جج نے ریمارکس نے دیے کہ ایسا کرلیتےہیں کہ وارنٹ کا فیصلہ جاری رکھتےہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے سے مشروط رکھ لیتے ہیں، عمران خان کو قانون کو فالو کرنا چاہیے، وکیل شیرافضل مروت نے کہا کہ ابھی تک تو ہماری یہی استدعا نہیں سنی گئی کہ توشہ خانہ کیس قابل سماعت ہے بھی یا نہیں۔
جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کے وکلاء کے پاس حق ہے، جتنی مرضی درخواستیں دینا چاہیں آپ دیں، اتنا صبر کیا ہے، عدالت تھوڑا اور صبر کر لےگی، وکیل شیرافضل مروت نے کہا کہ توشہ خانہ کیس پر جتنی نظریں ہیں اتنی تین قتل کے کیسز پر نہیں ہوگی، اس دوران دونوں فریقین نے اداروں کو عدالت کی جانب سے سیکیورٹی انتظامات کرنے کی ہدایت پر اتفاق کیا۔
اس کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک سماعت میں وقفہ کردیا۔
توشہ خانہ ریفرنس
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔
گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔