محمد قوی خان۔۔۔ ایک چراغ اور گل ہوا
کچھ دنوں سے ہماری زندگی کے منظرنامے پر ہجرت کا موسم مستقل طور سے طاری ہے۔ ابھی امجد اسلام امجد اور ضیامحی الدین کی جدائی کا زخم ہرا تھا کہ محمد قوی خان کی رحلت کا پُرسہ لکھنا پڑگیا۔ اب تو الفاظ بھی ساتھ چھوڑنے لگے ہیں۔ فنون لطیفہ کی دنیا میں یکے بعد دیگرے کئی نابغہ روزگار ہستیاں راہِ عدم ہوئیں، جانے والوں کو ویسے بھی کون روک سکتا ہے۔ فیض صاحب نے کہا تھا کہ ۔۔۔
گُل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی شام
دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات
لیکن ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ رات اب طویل ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کے فنون لطیفہ کے بڑے بڑے لوگ رخصت ہو رہے ہیں اور دکھ اس بات کا ہے کہ ان میں سے اکثریت کی جگہ لینے والا بھی کوئی نہیں۔ اس لیے زندگی کا منظرنامہ ویران محسوس ہونے لگا ہے۔ ہمارے سماج میں اب سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال، ٹیکنالوجی کی شدید رغبت، ہیش ٹیگ میں مبتلا طرزِ زندگی، ایسے ماحول میں اب ہم میں سے حقیقی دُکھ کو محسوس کرنے والے کتنے باقی ہیں؟ شاید بہت کم ہیں، البتہ رخصت ہونے والوں کے ساتھ تصویریں کھنچوا کر ایسے مواقع پر آویزاں کرنے والے بہت ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے لوگ بھرے پڑے ہیں جنہوں نے اس شخص کی زندگی میں کبھی اس کو ایسے یاد نہ کیا ہو مگر رخصت ہوجانے پر تصویر کی رسید ضرور دیتے ہیں۔
محمد قوی خان کے رخصت ہونے سے صرف ایک فرد رخصت نہیں ہوا بلکہ ایک عہد تمام ہوا ہے۔ ہمارا بچپن، سنہری دور کی یادیں، سماج سے جڑے ہوئے کردار، تہذیب کی عملی روایت، رکھ رکھاؤ اور عاجزی و انکساری کی صفت بھی گئی۔ وہ ایک خالص اداکار تھے مگر اس سے کہیں زیادہ فرشتہ صفت انسان بھی تھے۔ مجھے وہ منظر نہیں بھولتا جب میں پہلی بار ان سے لاہور میں ملا تھا۔ ان کے گھر گیا تو جس شفقت سے ملے اور انٹرویو دیا، عمدہ ناشتہ کروایا اور گھر کے دروازے تک رخصت کرنے آئے وہ میں بھول نہیں سکتا۔
افسوس تو یہ ہے کہ ہم تو اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان کو اُس شانِ محبوبی سے رخصت بھی کرسکیں۔ کراچی میں بھی ان سے متعدد ملاقاتیں رہیں، جب بھی ملے انتہائی شفقت اور شگفتگی سے ملے۔ شوبز کے مصنوعی پن کو انہوں نے کبھی اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا، یہ بھی انہی کا خاصا تھا۔ ان کی اپنائیت والی آواز اور شیریں لہجہ کبھی بھلایا نہ جاسکے گا۔
ذاتی زندگی
محمد قوی خان کی تاریخ پیدائش 13 نومبر 1942ء تھی۔ وہ شاہجہاں پور (غیرمنقسم ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ اس حوالے سے اکثر جگہ پشاور کو پیدائش لکھا اور بتایا گیا ہے مگر درست جائے پیدائش کی تصدیق ان کے اپنے ایک انٹرویو سے ہوتی ہے جو کچھ عرصہ پہلے ہی انہوں نے ساجد حسن کو دیا تھا۔ اس کے مطابق پشاور ان کا مقام پیدائش نہیں ہے بلکہ وہ شاہجہاں پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد نقی خان پولیس کے محکمے سے وابستہ تھے۔ قیام پاکستان کے وقت انہوں نے ہجرت کی تو محمد قوی خان چند برس کے تھے لیکن پھر بھی ان کو ہجرت کے لہولہان مناظریاد ہیں۔ ان کی یادداشت میں ہجرت کی صعوبتیں نقش رہیں۔ پاکستان میں ان کے والدین نے پشاور کو اپنا مسکن بنایا اور وہیں قوی خان نے گورنمنٹ ہائی اسکول سے اور پھر ایڈورڈ کالج سے تعلیمی سفر مکمل کیا اور اپنے اندر کے فنکار کا تعاقب بھی کرتے رہے۔
ان کے بڑے بھائی بھی ریڈیو پاکستان پشاورکے لیے لکھا کرتے تھے اور ایڈورڈ کالج پشاور میں انگریزی کے پروفیسر بھی تھے۔ ان کو گورنمنٹ کالج لاہور میں ملازمت ملی، تو وہ اہل خانہ کے ہمراہ پشاور سے لاہور منتقل ہوئے، جس کی وجہ سے محمد قوی خان کو بھی لاہور میں سکونت اختیار کرنا پڑی، جو اداکاری کے شوق کے لیے، ان کے حق میں فائدے مند ثابت ہوئی۔
قوی خان میں بچپن سے اخبار بینی کی عادت پختہ تھی۔ وہ جب تیسری جماعت میں تھے تو گھروالوں کو اخبار بلند آواز میں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ وہ اسکول اور کالج میں ہونے والے ڈراموں میں حصہ لیتے تھے جس کی وجہ سے ریڈیو سے رغبت ہوئی اور تھیٹر کی طرف بھی مائل ہوئے۔ ان کی شادی 1968ء میں ناہید قوی سے ہوئی تھی۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، سب بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کے دونوں بیٹوں عدنان قوی اور مہران قوی نے بھی شوبز میں قسمت آزمائی کی لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ وہ دونوں کینیڈا میں ہی مقیم ہیں جہاں محمد قوی خان کی رحلت ہوئی۔
پیشہ ورانہ حیات کا ابتدائی زمانہ
ان کا آبائی گھر پشاور کی مشہور اور تاریخی مسجد مہابت خان کے قریب تھا۔ وہاں ان کے ایک پڑوسی اور اس وقت کے ریڈیو کے مشہور آرٹسٹ شیخ شریف رہا کرتے تھے۔ ان کے توسط سے آپ ریڈیو پشاور سے منسلک ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 6 برس تھی۔ اس طرح پڑھائی اور ریڈیو کا کام ساتھ ساتھ جاری رہا تاوقتیکہ آپ لاہور منتقل نہ ہوگئے۔ یہاں پہنچ کر بھی ریڈیو سے تعلق برقرار رکھا اور اسٹیج تھیٹر سے بھی وابستہ ہوگئے۔ اداکاری کا سلسلہ دھیرے دھیرے بڑھتا گیا اور اس دوران ان کو فلم میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی۔ اس کے بعد تو ان کے لیے شہرت کے دروازے کھل گئے مگر حقیقی شہرت ان کو ٹیلی وژن سے ملی کیونکہ آپ پاکستان ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے پہلے ڈرامے کے ہیرو تھے۔
ریڈیو سے وابستگی
محمد قوی خان کی شہرت کا پہلا زینہ ریڈیو تھا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان پشاور سے بطور چائلڈ ایکٹر اپنے کام کی ابتدا کی۔ انہوں نے وہاں اس وقت کی تمام بڑی شخصیات کو قریب سے دیکھا اور زبان و بیان، تلفظ، گفتگو کا طور طریقہ، صداکاری کا فن سیکھ کر کامل ہوئے۔ اپنے محلے کے مشہور ریڈیو فنکار شیخ شریف کے انتخاب کو درست ثابت کرتے ہوئے اپنے اندر کے فنکار کو دلجمعی سے دریافت کیا۔ ان کی یادوں میں معروف شاعر احمد فراز سے ہونے والی ملاقاتوں کا دھندلا عکس بھی ہے جب احمد فراز ریڈیوپاکستان پشاورمرکز کے لیے اسکرپٹ لکھتے تھے اور محمد قوی خان نے ان کے لکھے ہوئے کئی اسکرپٹ پر اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ ریڈیو پاکستان لاہور مرکز اور دیگر کئی شہروں کے مراکز تک جاری رہا۔
اسٹیج ڈراموں اور تھیٹر کا زمانہ
یہ وہ زمانہ ہے جب انہوں نے حقیقی معنوں میں اپنے اندر کے اداکار سے کام لینا شروع کیا۔ اس زمانے میں ریڈیو کی تربیت بھی ان کے بہت کام آئی اور صرف یہی نہیں بلکہ اسٹیج پر حاضرین کے سامنے اداکاری کرنے سے ان کے اندر ایک ایسا اعتماد پیدا ہوا جس نے ان کو دیگر فنی میڈیم میں مضبوطی فراہم کی۔ ان کے خیال میں ریڈیو اور اسٹیج دو ایسی جگہیں ہیں جہاں کام کرنے والے اداکار کو کندن ہونے کا موقع ملتا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ایک عمدہ فنکار کو یہ خبر ہونی چاہیے کہ ریڈیو کے ڈرامے، تھیٹر کے کردار، ٹیلی وژن کی کہانیوں اور فلم کے بڑے پردے پر اداکاری میں کب، کہاں، کس طور سے کام کرنا ہے۔ ان کو یہ فرق ان تمام فنی میڈیمز میں کام کرنے کے بعد معلوم ہوا لیکن اسٹیج کو کلیدی اہمیت حاصل رہی، کیونکہ یہیں سے ان کے لیے فلمی صنعت کا دروازہ کھلا اور ٹیلی وژن کی طرف جانے والی راہیں ہموار ہوئیں۔
ٹیلی وژن کا سنہری دور
پاکستان میں 26 نومبر 1964ء وہ یادگار تاریخ ہے جب ٹیلی وژن کا قیام عمل میں آیا۔ اس تاریخ کے ٹھیک 2 دن بعد پاکستان ٹیلی وژن سے پہلا ڈراما نشر ہونا تھا جس کے ہیرو محمد قوی خان تھے۔ اس ڈرامے کا نام ’نذرانہ‘ تھا جس کے پروڈیوسر فضل کمال تھے جبکہ نجمہ فاروقی نے اسے لکھا تھا۔ قوی خان اس وقت سے لے کر تادمِ مرگ ٹیلی وژن ڈراما صنعت میں کام کرتے رہے، یہ عرصہ لگ بھگ 7 دہائیوں پر مشتمل عرصہ ہے۔ اس میڈیم میں ان کو سب سے زیادہ شہرت 1980ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہونے والے ڈرامے ’اندھیرا اجالا‘ سے ملی۔ انہوں نے 1990ء کی دہائی میں ایک ڈرامے کے لیے مرزا غالب کا کردار بھی نبھایا اوراس کردار کو بھی امرکردیا۔
ان کے چند دیگر مقبول ڈراموں میں لاکھوں میں تین، دہلیز، الف نون، فشار، مرزا اینڈ سنز، انگار وادی، آشیانہ، ریزہ ریزہ اور اڑان وغیرہ شامل ہیں۔ ماضی قریب کے ڈراموں میں داستان، دل موم کا دیا، خانی، صدقے تمہارے، میرا قاتل میرا دلدار وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سارے طویل اور مختصر دورانیے کے کھیلوں میں بھی انہوں نے اپنے فن کا جادو جگایا۔ گزشتہ برس 2022ء میں ان کے دو ڈرامے ’پہچان‘ اور ’میری شہزادی‘ آن ایئر تھے۔
فلم کے پردے پر گزاری زندگی
پاکستانی فلمی صنعت میں محمد قوی خان نے 1960ء کی دہائی میں قدم رکھا۔ انہوں نے دلجیت مرزا کی فلم ’رواج‘ میں پہلی مرتبہ بطور اداکار ہی کام نہیں کیا بلکہ وہ اس فلم کے نائب ہدایت کار بھی تھے۔ یہ فلم 1965ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی فلموں میں ’بہورانی‘ وہ فلم تھی جس سے ان کو فلمی دنیا میں مقبولیت ملنا شروع ہوئی۔ اس فلم پر انہیں بہترین معاون اداکار کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس فلم میں محمد علی اور زیبا کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
فلمی صنعت میں بھی ان کے کام کرنے کا عرصہ تقریباً سات دہائیوں پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے 200 فلموں میں کام کیا۔ وہ اپنے وقت کی چند مشہور اداکاراؤں کے ساتھ بطور ہیرو بھی آئے جن میں دیبا، بابرہ شریف، زیبا اور دیگر شامل ہیں، لیکن انہوں نے زیادہ کام ثانوی کرداروں ہی میں کیا۔ فلمی دنیا میں ان کو جو مقام ملنا چاہیے تھا وہ انہیں حاصل نہ ہوسکا، یہی وجہ ہے کہ پھر اپنے کریئر میں آگے چل کر انہوں نے ڈراما کی صنعت پر توجہ مرکوز کرلی۔
محمد قوی خان کا فلم سے وابستگی کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے صرف اداکاری سے تسکین حاصل نہیں کی بلکہ درجن بھر فلمیں پروڈیوس بھی کیں اور 1975ء میں ریلیز ہونے والی ایک فلم ’روشنی‘ کی ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیے۔ انہوں نے جن فلموں کو بطور پروڈیوسر بنایا ان میں پہلی فلم ان کی مادری زبان پشتو میں تھی۔ اس فلم کا نام ’مہ جبینے‘ تھا اور اس کی ریلیز کا سال 1972ء ہے۔ اس فلم میں ان کے ساتھ آصف خان بھی ہیرو تھے۔ ان کی بنائی ہوئی دیگر فلموں میں مسٹر بدھو، بے ایمان (1973ء)، منجی کتھے ڈاہواں، نیلام (1974ء)، روشنی (1975ء)، جوانی دیوانی (1977ء)، چوری چوری (1979ء) پاسبان (1982ء)، گرفتاری (1986ء) اور ماں بنی دلہن (1988ء) شامل ہیں۔
انہوں نے ماضی میں جن فلموں میں اداکاری کی ان میں سے چند معروف فلموں میں محبت زندگی ہے، ٹائیگر گینگ، سوسائٹی گرل، سرفروش، کالے چور، آج اور کل، صائمہ، بیگم جان، ناگ منی، رانگ نمبر، انٹرنیشنل لٹیرے، سر کٹا انسان، پری، قائداعظم زندہ باد اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی زندگی کی آخری مختصر فلم ’نانو اور میں‘ نے بھی کئی بین الاقوامی فلمی میلوں میں توجہ حاصل کی، اس میں انہوں نے کمال اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ ابھی ان کا کیا ہوا کافی کام نمائش پذیر ہونا باقی ہے۔
ان فلموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے فلمی صنعت میں ہر طور کی فلم سازی کو تخلیق کیا اور کوشش کی کہ بطور فلم ساز اپنے قدم جماسکیں لیکن اس شعبے میں قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ یہ بدنصیبی ان کی زندگی کے اختتام تک ان کا پیچھا کرتی رہی، ان کی زندگی کی آخری فیچر فلم ایک انگریزی اور بین الاقوامی فلم ’آئی ول میٹ یو دیئر‘ تھی جس میں انہوں نے پاکستانی نژاد امریکی اداکار ’فاران طاہر‘ کے ساتھ بہترین کردار نبھایا تاہم اس فلم کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہ مل سکی۔ وہ اس فلم میں کام کرکے بے حد خوش تھے۔ پاکستان میں نمائش پذیر ہونے والی ان کی آخری فلم ’قائداعظم زندہ باد‘ تھی۔
کامیابیاں و اعزازات
محمد قوی خان اس حوالے سے خوش نصیب رہے کہ ان کے کام کا اعتراف ان کی زندگی میں بارہا کیا جاتا رہا۔ وہ پاکستان ٹیلی وژن کے پہلے فنکار تھے جن کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ملا، پھر ستارہ امتیاز بھی وصول کیا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے لائیف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز بھی ملے۔ انہوں نے پاکستانی فلمی صنعت میں آسکر ایوارڈز جیسی اہمیت رکھنے والے نگار ایوارڈ بھی 3 بار حاصل کیا۔پاکستانی میڈیا میں بھی ان کی خدمات کااعتراف بارہا کیا جاتا رہا۔
عوامی سطح پر بھی ان کو پذیرائی ملتی رہی۔ ابھی حال ہی میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے ان کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں ان کے ساتھی فنکاروں نے بھی ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، جبکہ صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے خصوصی مکالمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ ان کے بے شمار انٹرویوز، ان کی زندگی، شخصیت اور فن کے نکھار کو بیان کرتے ہیں۔
حرف آخر
پاکستان کے ثقافتی ادوار میں جب بھی ٹیلی وژن اور فلم کے سنہری ادوار کا تذکرہ ہوگا تو محمد قوی خان کا نام سرفہرست ہوگا۔ پاکستانی ڈراما صنعت کے پہلے مرکزی اداکار، ہیرو، جن کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ وہ اپنی ذات میں صرف ایک فنکار ہی نہیں تھے بلکہ اداکاری کے فن کا عہد زریں تھے کیونکہ انہوں نے یہ ایک کام کرنے کے علاوہ کوئی کام کیا ہی نہیں۔ وہ یہ طے کرچکے تھے کہ وہ اس شعبے میں ہی بام عروج تک پہنچیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے اپنے فن میں بلندی کو چھوا اور پاکستان کی ثقافتی تاریخ کا ایک عہد ثابت ہوئے۔ ان کے جانے سے دل بے حد اداس ہے۔۔۔۔
ہیڈر: انسٹاگرام
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔