• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ثاقب نثار اور فیض حمید اس وقت بھی عمران خان کیلئے لابنگ کررہے ہیں، فضل الرحمٰن

شائع March 5, 2023
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ٌپریس کانفرنس کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ٌپریس کانفرنس کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ریٹائرڈ چیف جسٹس ثاقب نثار اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اس وقت بھی عمران خان کے لیے لابنگ کررہے ہیں اور مصروف عمل ہیں، اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، ادارے فور ی طور پر ان کا نوٹس لیں اور اگر ہماری معلومات صحیح ہیں تو ان کو لگام ڈالیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کیا اسمبلیاں وزرائے اعلیٰ نے توڑی ہیں یا ایک لیڈر کے حکم پر عمل کیا ہے اور اس کے کہنے پر توڑی گئی ہیں، ان حقائق کو سامنے رکھا جائے، آئینی لحاظ سے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ نے دستخط کیے لیکن وزیر اعلیٰ کو جس نے حکم دیا وہ بھی تو کوئی خفیہ بات نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ، کیا ہم پاکستان کی سیاست اس طرح کریں گے، جس طرح سے ہماری اسمبلیاں توڑی گئیں کیا یہ ہماری اسمبلیوں کی خودمختاری اور بالادستی کی دلیل ہو گی لیکن ہمیں ضرور اس بات پر تعجب اور حیرت ہے کہ ہماری سپریم کورٹ نے ازنوٹس لیا کہ انتخابی شیڈول کیوں نہیں دیا جا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ کاش 25جولائی 2018 کے الیکشن کے نتائج کے موقع پر جب سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن دونوں کے دروازے پر عوام جمع تھے اور پھر پورے ملک میں اس الیکشن کے خلاف ملین مارچ ہوئے، پندرہ دن تک عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اسلام آباد میں رہا، آج کہہ رہے ہیں ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اس لیے سوموٹو لے رہے ہیں لیکن اس وقت جب پورا پاکستان اسلام آباد میں داخل ہو چکا تھا تو اس وقت آپ کو ان کی چیخ و پکار سنائی نہیں دی تھی۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ نے کہا کہ یہ کیسے کان ہیں کہ جہاں 15لاکھ عوام اسلام آباد میں ہیں تو آپ کو ان کی آواز تو نہیں سنائی دے رہی اور کہیں ہر ایک دو آدمی آ کر کھٹکھٹا دیں تو ان کی آہٹ آپ کو سمجھ میں آجاتی ہے اور آپ اس پر سوموٹو لے لیتے ہیں۔، کہتے ہیں 90دن کے اندر الیکشن کرانا ہے، یہی سپریم کورٹ تھی جس نے جنرل مشرف کو کہا تھا کہ تین سال کے اندر الیکشن کرانا ہے، وہ کس آئین کا تقاضا تھا جس نے جنرل مشرف کو کہا کہ تین سال میں الیکشن کرانا ہے اور آج کہا جا رہا ہے کہ 90دن کے اندر الیکشن کرانا ہے، یہ آئین کا تقاضا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوال بنیاد یہ ہے کہ عمران خان کی تین ساڑھے تین سال کی حکومت نے ریاست کو کہاں تک پہنچا دیا، آج آئی ایم ایف ہمارا بجٹ بنا رہا ہے، ہمارے نرخ کنٹرول کررہا ہے، اب عام آدمی کیا جانتا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے ہماری قیمتوں کا اتار چڑھاؤ اس کے حوالے کردیا گیا ہے، کس طرح ہمارے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کردیا گیا ہے اور وہ پاکستان کے کسی ادارے کو جوابدہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آلو مہنگا ہو گیا ہے، پیاز مہنگا ہو گیا ہے آٹا مہنگا ہو گیا ہے، حکومت روٹی مہیا نہیں کر سکتی اور ہم سے تقاضا کیا جا رہا ہے کہ ہم 80ارب روپے ووٹ کی پرچی کے لیے الیکشن کمیشن کے حوالے کریں، ریاست کو بھی دیکھا جائے اور ریاست کے اندر رہنے والے غریب آدمی کو بھی دیکھا جائے، ان ساڑھے تین سالہ پالیسیوں کے نتیجے میں ہم مسلسل دھنستے چلے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں ملک میں بدامنی ہے، مسلح گروپ ہیں، تھانوں پر حملے ہو رہے ہیں، آپ تو اسلام آباد میں رہ رہے ہیں لیکن میں جس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں تو میں اور میرے اور بہت سے لوگ ان علاقوں میں الیکشن مہم میں نہیں جا سکیں گے، کیا ہماری فوج، پولیس میں اس وقت اتنی سکت ہے کہ وہ ہر پولنگ اسٹیشن کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی مہیا کر سکے۔

فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں علدیہ پر ضرور حیرت ہے کہ وہ سوموٹو لے کر فارغ ہو گئے، ایک بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ بہت لوگ مرعوب ہیں اور دباؤ میں بات کررہے ہیں کہ دو وار تین کا فیصلہ ہے، ہمارے نزدیک یہ چار اور تین کا فیصلہ ہے لہٰذا یہ پہلو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور میں ماہرین آئین اور قانون کو دعوت دینا چاہتا ہوں کہ وہ آئیں اور اس پہلو پر بات کریں کہ جن دو ججوں کی رائے کی فیصلے میں نشاندہی کی جا رہی ہے اس کو تعداد میں شمار کیوں نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریٹائرڈ چیف جسٹس ثاقب نثار اور ریٹائرڈ جنرل فیض حمید اس وقت بھی عمران خان کے لیے لابنگ کررہے ہیں اور مصروف عمل ہیں، اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، ادارے فور ی طور پر ان کا نوٹس لیں اور اگر ہماری معلومات صحیح ہیں تو ان کو لگام ڈالیں، ان کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں وقت سے پہلے دخل انداز ہونے کی کوشش کریں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024