عمران خان پر ایک اور قاتلانہ حملے کی تیاری ہو رہی ہے، بابر اعوان کا دعویٰ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما بابر اعوان نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان پر ایک اور قاتلانہ حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ آج سے چند ماہ قبل پی ٹی آئی کا لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے ہمیں عمران خان پر حملے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں جن کی بنیاد پر میں نے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں کہا تھا کہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے یہ بات کی تو اس وقت دوستوں نے اس کا مذاق اڑایا تھا، اس کے بعد عمران خان نے بھی اس بات کو دہرایا کہ ان پر حملہ ہوگا اور یہ بھی بتادیا کہ حملہ کس طرح سے ہوگا، اس کے بعد اس منصوبے پر وزیر آباد میں عمل کیا گیا، اس حملے میں عمران خان سمیت 11 لوگ شدید زخمی ہوئے جب کہ ہمارا ایک کارکن جاں بحق بھی ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعے کو مذہبی جنونیت کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور آج تک عمران خان کے بیان کے مطابق مقدمہ درج نہیں کیا گیا، حکومت نے کیس میں 2 مؤقف اپنائے، ایک یہ کہ عمران خان پر کوئی حملہ نہیں ہوا، دوسرا یہ کہ ان پر مذہبی جنونی نے حملہ کیا، مقامی پولیس اور ذمہ داران اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جے آئی ٹی نے بتایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین پر 3 مقامات سے فائرنگ کی گئی۔
بابر اعوان نے کہا کہ اب ہمارے پاس کچھ تازہ شواہد، حالاتی شواہد اور اطلاعات ہیں جن کی بنیاد پر ہم حساس صورت حال بیان کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کس طرح عمران خان کی جان لینے کی کوشش ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں حالاتی شواہد کے کچھ حصے بیان کرتا ہوں جن سے یہ اندھے کو بھی نظر آجائے گا کہ عمران خان پر ایک اور قاتلانہ حملے کی تیاری ہو رہی ہے اور یہ بھی بتاؤں گا کہ کون عمران خان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سازش کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ عمران خان کی اسلام آباد کی مقامی عدالتوں میں پیشی پر اصرار کیا جا رہا ہے، عمران خان کے خلاف پرچے کیوں ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عمران خان کی پیشی کے دوران پیش آئے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان پر حملے کی سازش کی جا رہی ہے۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ وزارت داخلہ کے انچارج نے کہا ہے کہ عمران خان کے حملے کے بعد ان کے پاس اطلاع ہے کہ ایک غیر ملکی ایجنسی کسی پیشی کے دوران ان کو قتل کرنا چاہتی ہے، یہ بات ہم نہیں کہہ رہے، یہ بات حکومت کہہ رہی ہے جو کہ ریکارڈ پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو سیکیورٹی کے حساب سے تنہا کر دیا گیا ہے، لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی، اسی طرح اے ٹی سی اسلام آباد میں پیشی کے موقع پر سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی، وہ کون تھا جس نے وہاں سے سیکیورٹی اہلکار ہٹائے، حکومت خود کہہ رہی ہے کہ غیر ملکی ایجنسی عمران خان کو مارنا چاہتی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیوں مارنا چاہتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ان کو کسی عدالتی پیشی کے دوران مارا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کی سیکیورٹی کو درپیش خطرات و خدشات کے پیش نظر میں استدعا کرتا ہوں کہ عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیشی کی اجازت دی جائے، بتایا جائے کہ اگر عمران خان کو کچھ ہوا تو کون ذمہ دار ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں حکمرانوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر عمران خان کو کچھ ہو گیاتو ذمہ دار کون ہوگا۔
بابر اعوان نے کہا عمران خان کے خلاف درج تمام مقدمات فوری طورپر خارج کیے جانے کے قابل ہیں، اس لیے میں عدلیہ سے گزارش کرتا ہوں کہ عمران خان کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے لیکن انہیں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔
انسداد دہشتگردی کیس: عدالت کی اسد عمر ،دیگر رہنماؤں کے وکلا کو آئندہ سماعت پر دلائل دینے کی ہدایت
دوسری جانب انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن کی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر وغیرہ کے خلاف الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کرنے پر درج مقدمہ میں آئندہ سماعت پر دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے راجن پور پولیس کو بھی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا۔
سماعت کے دوران اسد عمر اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے وکلا بابر اعوان اور سردار مصروف عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے کہا کہ ساڑھے 10 بجے تک تمام نامزد ملزمان اور وکلا کو آنے دیں، بحث کر لیتے ہیں جس کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ دہشت گردی کی دفعات حذف کرنے کی درخواست پر آج دلائل دینے ہیں تو فیصلہ کر لیتے جس پر بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ دہشت گردی کی دفعات حذف کرنے کی درخواست پر دلائل اگلی تاریخ پر کر دیں گے۔
عدالت نے کہا کہ اسد عمر عدالت سے غیر حاضر ہیں، راجن پور سے آئے ہیں کیا؟ جس پر عدالتی عملے نے بتایا کہ اسدعمر راجن پور سے ہی نہیں آئے۔
بابر اعوان ایڈووکیٹ نے عدالت سے کہا کہ اسد عمر اگر اگلی تاریخ تک رہا ہو جاتے ہیں تو خود آجائیں گے۔
عدالت نے راجن پور پولیس کو ریکارڈ سمیت طلب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر پوچھ لیتے ہیں کون سی دہشت گردی کی گئی، اگر یہ دہشت گردی تھی تو پولیس لائنز پشاور میں 99 لاشیں کیا تھیں؟ اب تو سیاسی دہشت گردی بھی ہونا شروع ہوگئی ہے۔
دورانِ سماعت جج راجا جواد عباس نے عمران خان کی گزشتہ پیشی کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس دن آئے تھے اور اپنے ساتھ ڈھائی ہزار بندہ بھی کمرہ عدالت لے آئے تھے، نام انصاف پر رکھا ہوا ہے اور عدالت میں زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں اور خود عدالت کا احترام نہیں کرتے۔
جج نے کہا کہ عدالتی پیشی کے دوران عدالت کا احترام نہیں کیا گیا تھا، اپنے ساتھ غنڈے اور بدمعاش بھی کمرہ عدالت میں لے آتے ہیں، ایک سال کی پیشی پر آئے تھے اور اپنے ساتھ دو سال کی پیشیاں لے کر چلے گئے، اب ایک سال مزید مجھے عدالتی سماعتوں میں مصروف رکھیں گے، میرے پاس اس معاملے کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے۔
عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ کیس کی سماعت 17 مارچ تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ عمران خان 28 فروری کو انسدادِ دہشت گردی عدالت میں تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے کی درخواست ضمانت پر حاضری لگوانے آئے تھے، جوڈیشل کمپلیکس میں توڑپھوڑ کے باعث عمران خان کے خلاف تھانہ رمنا میں مقدمہ درج ہوا تھا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی نااہلی کے خلاف احتجاج کرنے پر سابق وزیر اعظم، اسد عمر اور علی نواز سمیت 100 سے زائد کارکنان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ تھانہ سنگجانی میں درج کیا گیا تھا۔