ججوں پر منحصر ہے وہ تقسیم کا حصہ بنتے ہیں یا آئین کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں، فواد چوہدری
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آئین کی طرف اچھا اقدام اٹھایا ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اس کو تقسیم کرنے کی حکمت عملی بھی نظر آئی لیکن اب یہ ججز پر منحصر ہے کہ وہ تقسیم کا حصہ بنتے ہیں یا آئین کے تحفظ کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ کل سے درجن بھر وکلا نے اپنا نکتہ نظر عدالت کے سامنے رکھا ہے اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ الیکشن 90 روز کے اندر ہر صورت ہونے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق 90 روز کے اندر انتخابات ہر صورت ہونے ہیں اور ان انتخابات کا اعلان کس نے کرنا ہے اس نکتہ پر عدالت میں زیادہ بحث رہی ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم مقدمہ ہے اور جسٹس منصور علی شاہ نے ایک موقع پر تجویز پیش کی کہ اتفاق رائے سے معاملہ حل ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں سیاسی عمل کی طرف بڑھیں اور ہم اتفاق رائے سے الیکشن کرا سکیں لیکن جہاں مطالبات یہ ہوں کہ پہلے عمران خان گرفتار ہوں، انہیں مائنس (نااہل) کیا جائے گا اور اس کے بعد پی ٹی آئی کے تمام رہنماؤں کو نااہل کیا جائے گا، پھر نواز شریف کے مقدمات معاف ہونے چاہیے، ان کا پیسہ ان کو معاف ہونا چاہیے تو پھر الیکشن ہوں گے تو پھر اتفاق رائے کیسے ہوگا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم نے عدالت سے یہ استدعا کی کہ آئین کے مطابق آگے چلنا چاہیے، اگر ایک بار عدالت یا کسی بھی اور معاملے سے یہ طے ہو جائے کہ الیکشن 90 روز میں نہیں ہوسکتے تو پھر پاکستان میں کبھی بھی الیکشن نہیں ہوں گے۔
انہوں نے مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جنرل ضیاالحق نے کہا تھا کہ پہلے انصاف پھر انتخاب اور پھر وہ نوے روز کا وعدہ گیارہ سال تک چلا گیا اور اب نواز شریف کی بیٹی کہتی ہیں کہ پہلے انصاف پھر انتخاب یعنی پھر گیارہ برس کا پروگرام بناکر بیٹھ گئے ہیں۔
فواد چوہدری نے سپریم کورٹ کے ججز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے اور اس کے ججز بھی آئین کا تحفظ نہ کریں تو پھر ان کی کرسیوں کا فائدہ ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آئین کی طرف اچھا اقدام اٹھایا ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے کی حکمت عملی بھی نظر آئی لیکن اب یہ سپریم کورٹ کے ججز پر انحصار ہے کہ وہ تقسیم کا حصہ بنتے ہیں یا آئین کے تحفظ کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس میں وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو کل (بدھ) صبح 11 بجے سنایا جائےگا۔
گزشتہ روز سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجربینچ سے 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔
آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل شہزاد الہیٰ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے اعتراض کیا کہ عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا، سپریم کورٹ بار ایسویشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکمنامہ نہیں ہوتا، جب جج دستحط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔