• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

کے پی او حملے نے سیکیورٹی و انٹیلی جنس خامیوں کو اجاگر کردیا، وزیراعلیٰ سندھ

شائع February 21, 2023
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سرکاری عمارتوں پر سیکیورٹی کے انتظامات بہتر ہونے چاہیے تھے—تصویر اسکرین گریب
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سرکاری عمارتوں پر سیکیورٹی کے انتظامات بہتر ہونے چاہیے تھے—تصویر اسکرین گریب

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شاہراہ فیصل پر کراچی پولیس آفس (کے پی او) پر حملے کے بعد ناکافی حفاظتی انتظامات کا اعتراف کرتے ہوئے دہشت گردی کے خطرے کو کم کرنے کے لیے متعلقہ اداروں سے ’موثر‘ انٹیلی جنس کا مطالبہ کیا ۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 17 فروری کو ہونے والے حملے پر سندھ اسمبلی میں پالیسی بیان پیش کرتے ہوئے انہوں نے صوبائی پولیس کی جانب سے سیکیورٹی کی کوتاہی کا اعتراف بھی کیا اور کہا کہ حملہ آوروں کو کے پی او کی عمارت میں داخل نہیں ہونے دینا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری عمارتوں پر سیکیورٹی کے انتظامات بہتر ہونے چاہیے تھے، ’ہمیں سیکیورٹی کو مضبوط اور مزید موثر بنانے کی ضرورت تھی کیونکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد تمام حفاظتی رکاوٹوں کو توڑ کر کے پی او میں داخل ہوئے۔

انہوں نے سوال کیا کہ جب تھریٹ الرٹ تھا تو دہشت گرد کے پی او کی عمارت تک کیسے پہنچے؟ اور پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ سیکیورٹی کی خامی تھی۔

وزیراعلیٰ نے سوال اٹھایا کہ شمالی وزیرستان اور لکی مروت سے عسکریت پسند خودکش جیکٹس اور اسلحہ لے کر پورے راستے کیسے سفر کر کے کراچی پہنچے اور کے پی او پر حملہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کے لیے ہمیں اپنے انٹیلی جنس امور، سیکیورٹی کی خامیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔‘

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ بھی ہمارے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی کمزوری تھی جو معلومات اکٹھی نہیں کر سکی، جب دہشت گردوں نے خاردار تاریں کاٹیں تو کانسٹیبل عباس لغاری نے ان کا سامنا کیا اور وہ مارے گئے۔

ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ جب دہشت گرد خاردار تاریں کاٹ رہے تھے تو پولیس اہلکار کہاں تھے۔

انہوں نے کہا کہ تین دہشت گردوں کو ٹویوٹا کرولا کار میں کے پی او لایا گیا جس کے بعد وہ دیواریں پھلانگ کے کراچی پولیس آفس میں داخل ہوگئے، ان کے علاوہ 2 دہشت گرد موٹربائیک پر سوار تھے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ پولیس اور رینجرز نے فوری ردِ عمل دیا اور 10 منٹ میں جائے وقوع پر پہنچ گئے اور بتایا کہ وہ خود آپریشن کی نگرانی کے لیے پولیس کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر پہنچے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے اسنائپرز کو قریبی عمارتوں کی چھتوں پر تعینات کیا گیا تھا اور آپریشن میں پاک بحریہ کے ہیلی کاپٹرز کو بھی استعمال کرنے کے منصوبے پر غور کیا گیا تھا جن میں رات کو دیکھنے والے آلات موجود تھے۔

مراد علی شاہ نے پانچوں شہدا کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر کراچی کو ایک بڑی تباہی سے بچایا۔

انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ جو لوگ طالبان سے مذاکرات کے حق میں تھے وہ اس حملے کے ذمہ دار ہیں۔

سندھ اسمبلی کو دھمکی

اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے وزیراعلیٰ سندھ کو کہا کہ صوبائی اسمبلی کو بھی خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پہلے سندھ اسمبلی کو تھریٹ الرٹ جاری کیا تھا اور دعوٰی کیا تھا کہ دہشت گردوں کے پاس سندھ اسمبلی کے اندرونی حصوں کی تصاویر بھی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی کی سیکیورٹی کے لیے صرف چند اہلکار تعینات ہیں اور وہ بھی بغیر اسلحے کے۔

اسپیکر نے ارکان اسمبلی سے کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ساتھ غیر ضروری عملہ نہ لائیں۔

اسمبلی نے کے پی او حملے کی مذمت اور آپریشن پر پولیس، رینجرز اور فوج کے جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک مشترکہ قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024