گیس کی قیمتوں میں اضافے سے سندھ اور پنجاب کیلئے توانائی کی لاگت کا فرق واضح
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے پنجاب کے صنعتکار سندھ کے صنعتکاروں کے خلاف سامنے آگئے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نارتھ کی جانب سے اخبارات میں شائع کردہ اشتہار میں مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب اور سندھ کی برآمدی صنعتوں کے لیے گیس کے مختلف نرخوں کے بجائے 7 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) کی یکساں قیمت مقرر کی جائے۔
حالیہ اضافے کے بعد پنجاب کی برآمدی صنعتوں کو 9 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی ادائیگی کرنی پڑے گی جو سندھ میں موجود برآمدی صنعتوں سے لیے جانے والے نرخ سے 3 گنا زائد ہے۔
آپٹمس کیپیٹل مینجمنٹ لمیٹڈ کے چیئرمین آصف قریشی نے ڈان کو بتایا کہ ’سندھ کی صنعتوں کو تقریباً 4 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے نرخ پر گیس فراہم کرنا پائیدار نہیں، اتنی کم قیمت لینا کوئی معنی نہیں رکھتا جبکہ صنعتکار پہلے ہی 9 ڈالر فی یونٹ پر مسابقت رکھتے ہیں۔
اس کے لیے انہوں نے بنگلہ دیش کی برآمدی صنعت کا حوالہ دیا جس کے لیے گیس کی اوسط قیمت 8.50 ڈالر فی یونٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں فرق کی وجہ سے پنجاب کے صنعتکاروں کو لاگت میں نقصان ہوگا، برآمدی صنعت کو اس کے ٹرن اوور پر ٹیکس دینا پڑتا ہے منافع پر نہیں، لہٰذا توانائی کی لاگت کی بچت سے پیدا ہونے والا تمام اضافی منافع سیدھے سندھ کے صنعتکاروں کی جیبوں میں جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یوں 15 سے 20 بڑے صنعتکاروں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔
آئین کے تحت گیس پیدا کرنے والے صوبے کو اس کے استعمال کا پہلا حق حاصل ہے، پاکستان میں پیدا ہونے والی قدرتی گیس کا ایک بڑا حصہ سندھ سے آتا ہے۔
آصف قریشی نے کہا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ برآمد اور غیر برآمدی دونوں صنعتوں اور کیپٹیو پاور پلانٹس کو تقریباً 350 ملین مکعب فٹ یومیہ (ایم ایم ایف ڈی) گیس فراہم کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور پنجاب میں قائم برآمدی صنعتی یونٹس کے درمیان 5 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی قیمت کے فرق کے ساتھ جنوب کی صنعت کو کم از کم 57 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سالانہ کا فائدہ ہوتا ہے۔
آصف قریشی کا کہنا تھا یہ فرق اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جب پنجاب کی غیر برآمدی صنعتوں کی جانب سے ریگیسیفائیڈ لیکویفائیڈ قدرتی گیس کی ادائیگی کو دیکھا جاتا ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے پاک کویت انویسٹمٹ کمپنی لمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق کا کہنا تھا کہ برآمدی صنعتوں کے لیے گیس کے نرخوں میں فرق ناجائز ہے اور اس سے بغیر کسی وجہ صنعتکاروں کا ایک گروپ دوسرے کے سامنے آرہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پالیسی سرمایہ کاری کے لیے بری ہے، کسی کا بھی منافع اس کی فیکٹری کے مقام کے حساب سے نہیں ہونا چاہیے‘۔
سمیع اللہ طارق نے کہا کہ گیس کی قیمت میں حالیہ اضافہ توقع سے کم ہے کیوں کہ اس کا مقصد گیس کے شعبے میں نئے گردشی قرض کو بڑھنے سے روکنا معلوم ہوتا ہے۔
حالانکہ گیس کی اوسط لاگت 43 فیصد اضافے کے بعد 620 فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھ کر 885 فی ایم ایم بی ٹی یو ہوجاے گی لیکن گھریلو صارفین کا ایک بڑا حصہ اس اضافے کے اثرات سے محفوظ رہے گا۔