ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول۔۔۔ ضیا محی الدین
یہ تحریر ابتدائی طور پر 14 فروری 2023ء کو شائع ہوئی جسے ضیا محی الدین کی برسی پر دوبارہ پیش کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں تہذیب و تمدن کا ایک اور چراغ بجھ گیا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ صداکار، اداکار، ہدایت کار اور مضمون نویس ضیا محی الدین کی رحلت سے فن و ثقافت کی ایک صدی اپنے اختتام کو پہنچی۔
ضیا محی الدین ریڈیو، تھیٹر، ٹیلی وژن اور فلم کے میڈیم میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والے ان چند فنکاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنائی اور امریکی اور برطانوی سینما اور تھیٹر کی دنیا میں خود کو منوایا۔
ان کی زندگی کے اوراق کھولتے چلے جائیں تو ہمیں ہنرمندی کے کئی ادوار دکھائی دیتے ہیں جن میں ان کے کام اور مزاج کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ ان کو سمیٹتے جائیں تو آپ کو صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ پاکستانی سماج کے ثقافتی عروج و زوال کی کہانی بھی سمجھ آتی چلی جائے گی۔ وہ اپنی ذات میں پاکستانی فنون لطیفہ کا ایک جامع عہد بھی تھے۔ اب یہ عہد اختتام پذیر ہوگیا ہے۔
ذاتی زندگی کی پرچھائیاں
ضیا محی الدین نے 20 جون 1931ء کو غیر منقسم ہندوستان کے صوبے پنجاب کے ایک شہر لائلپور میں آنکھ کھولی۔ اب اس شہر کو فیصل آباد کہا جاتا ہے۔ آبائی طور پر ان کا خاندان روہتک (ہریانہ) سے تعلق رکھتا تھا جس نے پاکستان ہجرت کی۔ ابتدائی ایام میں قصور کی گزاری ہوئی زندگی کے نقوش بھی ملتے ہیں البتہ انہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ لاہور اور کراچی میں بسر کیا۔ ان کے والد خادم محی الدین پیشے کے اعتبار سے مدرس تھے اور تصنیف و تالیف سے بھی وابستہ تھے۔ انہوں نے پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ کے مکالمے بھی تحریر کیے تھے۔ اس سب کے ساتھ وہ بہت اچھے ڈراما نگار بھی تھے۔ ان کے لکھے ہوئے ڈراموں کا ایک مجموعہ کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ضیا محی الدین نے ڈرامے اور فلم کی محبت کو ورثے میں اپنے والد سے حاصل کیا۔
ضیا محی الدین نے 3 شادیاں کیں۔ پہلی شادی سرور زمانی سے گھر والوں کی پسند سے ہوئی، وہ گھریلو خاتون تھیں۔ ان سے ضیا محی الدین کے دو بیٹے ہیں۔ دوسری شادی کتھک کی معروف رقاصہ ناہید صدیقی سے ہوئی جن سے ان کا ایک بیٹا ہے۔ انہوں نے تیسری شادی اداکارہ عذرا سے کی جن سے ان کی ایک بیٹی ہے۔
پہلی اسکالرشپ اور بیرونِ ملک سفر
لاہور شہر میں بسر ہونے والے دنوں نے ان کی زندگی کو بدل دیا۔ انہوں نے 1949ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا، ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان سے بھی منسلک ہوگئے۔ زیڈ اے بخاری سے ان کی عقیدت بھی ریڈیو سے وابستگی کی ایک کلیدی وجہ تھی۔ یہیں سے ان کو براڈکاسٹنگ کی اسکالر شپ ملی اور وہ اس کے حصول کی خاطر ریڈیو آسڑیلیا چلے گئے۔
پاکستان سے باہر جانے کے اس تجربے نے ان کو فن و ثقافت کی نئی راہوں کی طرف مائل کیا۔ وہ ایک طرف وہاں براڈکاسٹنگ کی تعلیم و تربیت حاصل کررہے تھے لیکن دوسری طرف ان کی دلچسپی تھیٹر سے وابستہ سرگرمیوں کی جانب مائل تھی۔ اس کی وجہ سے انہوں نے آگے چل کر تھیٹر کوپیشے کے اعتبار سے مرکزی شعبہ مانا اور اس میں کام کرنے لگے۔ وہ آسٹریلیا میں چند برس گزارنے کے بعد انگلستان چلے گئے۔ وہاں انہوں نے تھیٹر کے مشہور علمی ادارے ’رائل اکیڈمی آف تھیٹر اینڈ آرٹس‘ میں داخلہ لے لیا اور صداکاری، اداکاری اور ہدایت کاری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ ان کے بھانجے شوکت زین العابدین نے ان کی سوانح عمری لکھی ہے جس میں ان کے حالات زندگی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
ضیا محی الدین 1956ء میں پاکستان لوٹے لیکن جلد ہی اسکالرشپ پر دوبارہ انگلستان چلے گئے۔ اس مرتبہ انہوں نے ہدایت کاری کی تعلیم حاصل کی اور وہاں کے تھیٹر میں کام کرنے کے لیے پرجوش ہوگئے۔ یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے برطانوی تھیٹر میں معروف ہدایت کاروں کے ساتھ کام کیا جبکہ عالمی شہرت یافتہ برطانوی فلم سازوں کے ساتھ بھی ان کو کام کرنے کاموقع ملا، یوں ضیا محی الدین نے عالمی شہرت حاصل کرلی۔
برطانوی سینما اور تھیٹر میں کامیابی
تھیٹر کے شعبے میں 1960ء میں معروف برطانوی ادیب ’جی ایم فوسٹر‘ کے مشہور ناول ’اے پیسج آف انڈیا‘ کو برطانیہ میں اسٹیج کیا گیا۔ اس میں ضیا محی الدین کو ڈاکٹر عزیز کا کردار ملا جس نے ان کی فنی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ کچھ مضمون نگاروں نے اس ناول پر بننے والی فلم میں ان کی اداکاری کا تذکرہ کیاہے جو کہ غلط ہے، انہوں نے صرف تھیٹر کے کھیل میں کام کیا تھا۔
اس کے بعد ضیا محی الدین نے برطانوی تھیٹر میں محنت شاقہ سے نمایاں مقام حاصل کیا۔ اسی طرح برطانوی سینما میں بھی قسمت نے ان کا ساتھ دیا اور یہ معروف برطانوی فلم ساز ’ڈیوڈ لین‘ کی نظروں میں آگئے، انہوں نے ضیا محی الدین کو 1962ء میں ریلیز ہونے والی اپنی مشہور زمانہ فلم ’لارنس آف عربیہ‘ میں کام کرنے کا موقع دیا۔ یہ فلم سپرہٹ رہی ہرچند کہ اس فلم میں ان کا کردار بہت مختصر تھا مگر اس سے ان پر برطانوی و امریکی فلمی صنعت کے دروازے کھل گئے۔ اس فلم میں پیٹر اوٹول، انتھونی کوئن اور عمر شریف جیسے مقبول ترین اداکار شامل تھے۔ اس فلم کو عالمی سینما کی تاریخ میں کلاسیکی فلم کا درجہ حاصل ہے۔
میری رائے کے مطابق حقیقی معنوں میں عالمی سینما میں ضیا محی الدین کی پہلی مرکزی فلم ’خرطوم‘ تھی جس میں انہوں نے معروف امریکی اداکار ’چارلس ہیسٹن‘ کے مدمقابل مرکزی کردار میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ یہ فلم 1966ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں برطانوی ٹیلی وژن ڈراموں میں بھی کام کرنے کے مواقع میسر آئے۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا۔ ان کے تھیٹر اور ٹیلی وژن کے نمایاں ڈراموں اور انگریزی فلموں کی فہرست پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ان کے اس فنی سفر کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
عالمی سطح پر اتنا کام کرنے کے بعد آپ برطانیہ، امریکا اور پاکستان و ہندوستان کی شخصیت بن گئے۔ ان کی اس اداکاری کاسلسلہ کئی دہائیوں پر محیط ہے جس کی ایک جھلک اس فنی سفر میں دکھائی دیتی ہے۔
تھیٹر کے کھیلوں کی فہرست
دی ایڈوانچر آف سر فرانسز ڈریک (1962ء)، ڈینجرمین (66-1964ء)، دی ایوینجر (1966ء)، ایڈم ایڈمنٹ لیوز (1967ء)، جیک نوری (1967ء)، مین اِن سوٹ کیس (1968ء)، دی چیمپئنز (1969ء)، ہیڈلی (1969ء)، ڈی ٹیکٹیو (1969ء)، گینگسٹرز (1978ء)، زیڈ کارز (1978ء)، مائنڈر (1980ء)، ڈیتھ آف پرنسز (1980ء)، دی جیول ان دی کراؤن (1984ء)، برجیرک (1984ء)، فیملی پرائڈ (92-1991ء)، دھن ہماری تمہارے نام ہوئی (1999ء)
پاکستان میں، ناپا میں 2005ء سے جن اسٹیج ڈراموں میں انہوں نے اداکاری کی یا ان کی ہدایات دیں وہ اس فہرست کے علاوہ ہیں۔
فلموں کی فہرست
لارنس آف عربیہ (1962ء)، سیمی گوئنگ ساؤتھ(1963ء)، بی ہولڈ اے پیل ہارس (1966ء)، ڈیڈلیئردن دی میل (1966ء)، دی سیلر فرام جبرالٹر (1967ء)، دی کیم فرام بی ہائنڈ اسپیس (1967ء)، ورک از اے فورلیٹر ورڈ (1968ء)، بمبے ٹاکیز (1970ء)، مجرم کون (1971ء)، سہاگ (1972ء)، آشنتی (1979ء)، امیکولیٹ کونسیپشن (1992ء)، سم لوورٹو سم بلیوڈ(دستاویزی فلم) (2017ء)۔
پاکستانی فلموں میں ناکامی
یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ ضیا محی الدین کو ہالی وڈ اور برطانوی سینما میں بہت مقبولیت ملی لیکن پاکستانی فلمی صنعت میں وہ نمایاں مقام حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 1960ء میں ریلیز ہونے والی ایک فلم ’راہ گزر‘ کے لیے بھی ضیا محی الدین کا نام لیا جاتا ہے، لیکن ان کی اس فلم کی وابستگی کے شواہد نہیں ملے۔
اب تک دستیاب شواہد کے مطابق انہوں نے 2 پاکستانی فلموں میں کام کیا جن کے نام ’مجرم کون‘ اور ’سہاگ‘ ہیں۔ ان میں سے پہلی فلم ’مجرم کون‘ کی ریلیز کا سال 1971ء ہے۔ اس کے ہدیات کار ’اسلم ڈار‘ تھے۔ یہ فلم باکس آفس پر ناکام ہوئی، اس فلم کو یوٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے۔ میری ذاتی رائے کے مطابق، یہ ایک اچھی فلم ہے، نہ جانے کیوں اس فلم کو کامیابی نہ ملی۔
ان کی دوسری فلم ’سہاگ‘ ہے جس کے ہدایت کار فرید احمد تھے۔ یہ فلم 1972ء میں ریلیز ہوئی اور اس فلم کو بھی باکس آفس پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یکے بعد دیگرے دو ناکام فلموں کے بعد ضیا محی الدین نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اب کسی پاکستانی فلم میں کام نہیں کریں گے اور وہ تادم مرگ اس پر قائم رہے۔
ضیا محی الدین کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک بھارتی فلم میں بھی کام کیا مگر اس کے کوئی شواہد نہیں ملتے، نہ ہی ان کی تحریروں، کتب اور انٹرویوز میں ایسی کسی فلم کا حوالہ ملتا ہے۔
پاکستان کے پہلے ٹاک شو کے بانی میزبان
ضیا محی الدین کے لیے 1969ء میں پاکستان ٹیلی وژن کی آمد سے ایک اور موقع پیدا ہوا کہ وہ پاکستانیوں کے سامنے خود کو ہنرمند ثابت کرسکیں۔ اس بار وہ مکمل تیاری سے آئے اور بقول شخصے ’وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا‘۔ انہیں پاکستان کے پہلے ٹاک شو کی میزبانی ملی جو 1973ء تک مسلسل 4 برس نشر ہوا۔ اس کے ذریعے نہ صرف انہوں نے گفتگو کے نئے در واکیے بلکہ اپنی دیگر فنی صلاحیتوں کو ناظرین پر آشکار کیا۔ ان میں شاعری کی پڑھنت، موسیقی کا ذوق، رقص سے دلچسپی، ادب کا عمیق مطالعہ وغیرہ شامل ہیں۔
اس شو نے ملک گیر کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور ضیا محی الدین پاکستان میں بھی شوبز کی ایک مقبول شخصیت بن گئے یہ الگ بات ہے کہ دو فلموں کی ناکامی کا تجربہ ان کے حافظے میں رہا۔ اس کی بنا پر فلموں میں کام کرنا تو دُور کی بات بلکہ پاکستان ٹیلی وژن کی مقبولیت کے باوجود کسی ٹیلی وژن ڈرامے میں کام کرنے میں دلچسپی نہ لی۔ اس مقبول شو کے اختتام پر ان کو ’پی آئی اے آرٹس اکیڈمی‘ کاڈائریکٹر مقرر کردیا گیا۔ وہ وہاں 1973ء سے 1977ء تک منسلک رہے۔
خود ساختہ جلاوطنی اور وطن واپسی
جنرل ضیاالحق کے مارشل نے ضیا محی الدین کو ایک مرتبہ پھر پاکستانی ناظرین سے دُور ہونے پر مجبور کیا اور وہ خودساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے انگلستان چلے گئے۔ یہ ان کے فلمی و ڈرامائی کرئیر کا ایک نیا سنگ میل تھا، خاص طور پر تھیٹر میں انہوں نے فقید المثال کامیابیاں حاصل کیں۔ البتہ برطانوی فلمی صنعت میں وہ پہلے ایشیائی اور پاکستانی فنکار نہ تھے بلکہ ان کے علاوہ بھی کئی ہندوستانی فنکار اپنے فن کا جادو جگاچکے تھے اور ایک عظیم پاکستانی اداکار ’بدیع الزماں‘ نے تو برطانوی سینما و ٹیلی وژن کی صنعت میں ضیا محی الدین سے بھی زیادہ کام کیا لیکن پاکستانی شائقین ان سے بے خبر رہے۔
وہ پی ٹی وی کے ان چند فنکاروں میں سے تھے جنہوں نے ابتدائی ٹی وی ڈراموں میں کام کیا تھا اور وہ بھی جنرل ضیاالحق کی آمریت سے تنگ آکر پاکستان سے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرکے انگلستان چلے گئے تھے۔ وہ ضیا محی الدین کے ہم عصر ہی تھے فرق صرف یہ ہے کہ ضیا محی الدین کو زندگی نے ایک بار پھر موقع دیا اور سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کی دعوت پر وہ دوبارہ پاکستان لوٹ آئے اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کی سربراہی سنبھالی۔
نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس
ان کو 2005ء میں حکومت وقت کی طرف سے دعوت دی گئی اور وہ سابق صدر پرویز مشرف کے کہنے پر پاکستان تشریف لائے، یہ بھی ان کی زندگی کا ایک عجیب تضاد ہے کہ ایک آمر کی وجہ سے جلاوطنی اختیار کی اور ایک آمر کی بدولت ہی اس جلاوطنی کو ختم کیا۔ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کے دور میں انہوں نے کلاسیکی تھیٹر کو پاکستان میں فروغ دینے کی کوشش کی۔
تجارتی بنیادوں پر انہیں بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوئی البتہ نئی نسل نے ان کی بدولت تھیٹر کے مختلف شعبوں میں دلچسپی لی اور وہ صداکاری اور داستان گوئی کی طرف راغب ہوئے۔ ان طلبا کی اکثریت تھیٹر کے فروغ میں تو کلیدی کردار ادا نہ کرسکی البتہ پاکستانی ڈرامے میں ان کی شمولیت سے نئی نسل کو پاکستانی شوبز میں نمایاں ہونے کاموقع ملا۔ ان میں سے ایک قلیل تعداد نے پاکستانی فلمی صنعت میں بھی کام کیا لیکن انہیں خاطرخواہ کامیابی نہ ملی۔
پاکستان میں تھیٹر کو رواج دینے کی اس سنجیدہ کوشش میں درپیش نشیب و فراز کو بھی ضیا محی الدین کی کامیابی و ناکامی تصور کیا جائے گا یہ اور بات ہے کہ ان نتائج میں اکیڈمی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اور انتظامی امور چلانے والی ٹیم بھی ذمے دار ہے۔ جب بھی ان نتائج کااحاطہ کیا جائے تو ان سب کو مدنظر رکھا جائے، صرف ضیا محی الدین اکیلے اس ادارے کی کامیابی اور ناکامی کے ذمے دار نہ ہوں گے۔
صداکاری کا طلسم
انہوں نے اپنے زندگی کے آخری دو ڈھائی دہائیوں میں بطور صدا کار سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ انہوں نے اردو شعر و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ ان کی صداکاری کی گونج اردو دنیا میں خوب گونجی۔ اس طرح کئی نسلوں کی رغبت اردو شعر و ادب کی طرف ہوئی۔ اس صداکاری میں ہلکا سا موسیقی کا امتزاج اس کے تاثر کو مزید گہرا کرتا رہا۔ ریڈیو سے شروع ہونے والی محبت اور وابستگی آخرکار صداکاری پر مکمل ہوئی۔
انہوں نے صداکاری میں ریڈیو اور تھیٹر کی تربیت کو ملاکر صداکاری میں ایک نیا انداز ایجاد کیا، یہ الگ بات ہے کہ ان کے شاگردوں نے بھی ان سے صداکاری کی تربیت حاصل کرنے کے بعد ہو بہو انہی کے انداز میں صداکاری اور طرز گفتگو اختیار کیا جس سے صداکاری کم اور نقالی کا احساس زیادہ ابھرا۔
کتابیں اور اعزازات
ضیا محی الدین نے زندگی کے آخری برسوں میں مطالعہ اور تصنیف و تالیف کو اختیار کرلیا تھا۔ وہ باقاعدگی سے ایک انگریزی روزنامے میں کالم لکھتے تھے۔ حیرت ہے کہ اردو زبان سے شہرت حاصل کرنے والی اس نابغہ روزگار شخصیت نے لکھنے کے لیے اردو زبان کو اختیار کیوں نہ کیا جبکہ وہ اس زبان کے تمام رموز سے بھرپور طور پر واقف تھے۔ بہرحال ان کے انگریزی کالموں کا ایک انتخاب اردو زبان میں شائع ہوا، جس کے مترجم معروف اداکار اور مدرس خالد احمد ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دو کتابیں اور شائع ہوئیں جن کے نام ’اے کیرٹ از کیرٹ‘ اور ’دی گاڈ آف آئڈولیٹری‘ شامل ہیں جن کا تعلق ان کے تحریری انتخاب اور یادداشتوں سے ہے۔
پاکستان میں تھیٹر کے شعبے میں سنجیدہ کوششیں کرنے والوں میں سے جن چند ناموں کو یاد رکھا جائے گا ان میں سے ایک ضیا محی الدین ہیں۔ ان کو صداکاری کے شعبے میں بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ عالمی تھیٹر اور عالمی سینما کے منظرنامے پر بطور پاکستانی ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا رہے گا۔
پاکستان نے ان کو ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا۔ کاش برطانیہ بھی ان کی خدمات کے تناظر میں ان کو کوئی اعزاز دیتا جہاں وہ ایک محتاط اندازے کے مطابق نصف صدی مصروف عمل رہے۔ بہرحال برطانوی فلمی شائقین میں ان کی مقبولیت بطور فنکار ایک ایسا اعزاز ہے جس کو شاید کسی اور تحسین کی ضرورت نہیں ہے۔
ضیا شناسی اور میں
زمانہ طالب علمی سے میں ضیا محی الدین کا مداح تھا۔ پہلی بار میں ان سے 2000ء میں اس وقت ملا تھا، جب وہ ایک پروگرام کے سلسلے میں کراچی تشریف لائے تھے۔ میں نے ان کی آواز میں ریکارڈ کلام فیض کی کیسٹ کے کوور پر ان سے آٹوگراف لیا۔ یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ آگے چل کر میں نے ان سے عقیدت کا یہ رشتہ مزید یوں استوار کیا کہ جامعہ کراچی میں داخلہ ہونے کے بعد 2006ء میں پہلے تحقیقی اسائنمنٹ کے لیے تھیٹر کے شعبے کا انتخاب کیا اور ضیا محی الدین تک رسائی کی کوشش کی۔
کئی ناکام کوششوں کے بعد ایک کوشش کامیاب ہوئی اور مجھے اس شرط پر پانچ منٹ کا وقت ملاکہ میں ملاقات میں اپنے تحقیقی مقالے کے لیے تیار کیے گئے سوالات ساتھ لکھ کر لاؤں جن کا جواب وہ انہیں پڑھنے کے بعد دیں گے۔ یہ میری دوسری ملاقات تھی۔ اس پانچ منٹ کی ملاقات میں میرے سوالات نے ان کے دل میں جگہ بنالی اور انہوں نے مجھے دوبارہ آنے کو کہا اور پھر اگلی بار (تیسری ملاقات) وہ ملاقات نصف گھنٹے سے زائد پر مشتمل تھی۔ انہوں نے مجھے تفصیلی انٹرویو دیا، جو میرے اس تدریسی مقالے کا حصہ بھی بنا۔
اس کے علاوہ بھی میں نے بطور صحافی ان کے متعدد انٹرویوز کیے۔ اس پہلے انٹرویو کے بعد گویا نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) میرا دوسرا گھر بن گیا۔ میں کئی برس وہاں جاتا رہا اور اس ادارے سے مستفید ہوتا رہا۔ ایک صحافی کے طور پر بھی میں نے اس ادارے کے لیے بے شمار لکھا، جس کاپورا ایک قلمی ریکارڈ موجود ہے۔ ایک موقع پراس ادارے میں مجھے مشیر بطور میڈیا کی آسامی پر ملازمت دی گئی۔ میں جب بطور ملازم اس ادارے کاحصہ بنا تو جیسا یہ بظاہر دکھائی دیتا تھا اندرونی حالات اس سے بہت مختلف تھے۔ مختصر طور پر یہ کہ میں نے عارضی مدت ملازمت میں ہی اس کو خیرباد کہہ دیا اور مجھے اس تجربے کے ذریعے یہ سمجھ آگیا کہ پاکستان میں سنجیدہ تھیٹر کو کیوں فروغ حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس موضوع کو کسی اور دن کے لیے اٹھارکھتے ہیں۔
بطور سربراہ ضیا محی الدین ایک محنتی انسان تھے جنہوں نے ادارے کی تنظیم اور فروغ کے لیے دن رات کوشش کی مگر افسوس ان کو ویسی ٹیم نہ ملی اور نہ ہی ویسا بورڈ آف ڈائریکٹرز کہ جن کی بدولت یہ ادارہ ترقی کرتا۔ وہ ادارے پر کبھی بوجھ نہ بنے، انہوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی اخراجات کو ادارے سے الگ رکھا، میں اس کا ذاتی طورپر شاہد ہوں۔ مگر نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا تھاکہ آخری برسوں میں ان کو ایک کمرے کی حد تک محدود کر دیا گیا تھا۔ وہ مرکزی منظرنامے سے کٹے ہوئے تھے یا کاٹے گئے تھے۔ بہرحال میں انہیں ایک عمدہ اور شاندار فنکارکے طور پر یاد رکھوں گا۔ ان کے ساتھ گزارے شب و روز میرے لیے باعث فخر و انبساط ہیں۔
حرف آخر۔۔۔ بازگشت
ضیامحی الدین سے میں نے پہلی ملاقات میں آٹوگراف لیتے وقت درخواست کی تھی کہ کلامِ فیض میں سے ایک مصرعہ ہے وہ بھی مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیں۔ انہوں نے وہ مصرعہ بھی لکھا۔ میں آج بھی وہ مصرعہ لکھنے والے اور اس مصرعے کی ادائی کرنے والے ضیا محی الدین کی محبت میں گرفتار ہوں، جس کا احساس مجھے ان کی رحلت پر ہو رہا ہے۔ کیونکہ میرا دل شدید اداسی سے بھرگیا ہے۔ ان سے بے شمار ملاقاتوں کے درمیان سب گھٹتے بڑھتے سائے تھے، اصل ملاقات ایک ہی تھی جب میں ان کے سامنے احترام سے کھڑا تھا اور وہ میرے لیے فیض کا کلام اپنے ہاتھوں سے لکھ رہے تھے۔ میں اسی کلام کے ساتھ ان کو آج رخصت کرتا ہوں۔ یہ کلام، ان کی آواز میں اس کی بازگشت، اس کلام میں پنہاں درد، اداسی، اضطراب اور کیفیت ہمیشہ ہم جیسے مداحوں کے دلوں میں قائم رہے گی، جن کے سرپر بغیر کسی حوالے کے آپ نے دستِ شفقت رکھا تھا۔ وہ کلام یہ ہے۔۔۔
آج بھی درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر تیرے خیال کے پھول
ترک الفت کے دشت سے چن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول
تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تیری یاد پر چڑھا آئے
باندھ کر آرزو کے پلے میں
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔