چین کا امریکا پر فضائی حدود میں جاسوسی غبارے بھیجنے کا الزام
چین نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ’جاسوسی غبارہ‘ بھیج دیے ہیں جبکہ اس سے قبل امریکا نے بھی چین پر اسی طرح کے الزامات عائد کئے تھے۔
غیرملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق چین نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے جنوری 2022 سے اب تک خلائی حدود میں 10 جاسوسی غبارے بھیجے ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے آج بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’دوسرے ممالک کی خلائی حدود میں غیرقانونی طور پر داخل ہونا امریکا کے لیے کوئی غیرمعمولی عمل نہیں ہے‘۔
ترجمان نے کہا کہ صرف گزشتہ ایک سال میں چینی حکام کی اجازت کے بغیر امریکی غبارے غیرقانونی طور پر 10 بار سے زیادہ چینی خلائی حدود میں اڑے۔
جب ترجمان سے پوچھا گیا کہ چین نے ان غیرقانونی داخل اندازی پر کس طرح ردعمل دیا تو انہوں نے کہا کہ بیجنگ کا ان سے اس طرح نمٹنا ذمہ دارانہ اور پروفیشنل تھا۔
ترجمان نے کہا کہ اگر آپ امریکی غباروں کے غیر قانونی طور پر چین کی فضائی حدود میں داخل ہونے کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ آپ امریکا کی طرف رجوع کریں۔
گزشتہ کچھ دنوں سے چین کے سرکاری میڈیا کا دعویٰ تھا کہ ملک کے مشرقی ساحل میں ایک اڑتی ہوئی چیز دیکھی گئی، جس کو چینی فوج مار گرانے کی تیاری کر رہی ہے۔
امریکا نے الزامات مسترد کردیے
ادھر امریکی وائٹ ہاؤس نے جاسوسی کرنے کے لیے غبارے بھیجنے سے متعلق چین کا الزام مسترد کر دیا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے ترجمان نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ ’کوئی بھی ایسا دعویٰ جھوٹا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت چینی فضائی حدود میں جاسوسی غبارے بھیج رہا ہے، تاہم وہ چین تھا جس نے انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے اونچائی پر نگرانی کرنے والا غبارہ امریکی حدود میں بھیجا‘۔
واضح رہے کہ امریکا میں فضائی دراندازیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی اطلاع کے بعد امریکیوں کی آنکھیں آسمان کی طرف ہیں جبکہ چین نے امریکی حدود میں اڑنے والی تینوں چیزوں کی تردید کردی ہے۔
گزشتہ روز پینٹاگون نے کہا تھا کہ اب تک وہ اس بات کا تعین نہیں کر سکے کہ الاسکا، کینیڈا کی حدودی اور ہورون جھیل کے علاقوں میں گرائی جانے والی چیزوں کا مقصد کیا تھا۔
امریکی فضائیہ کے جنرل گلین وان ہرک (جنہیں امریکی فضائی حدود کی حفاظت کا کام سونپا گیا ہے) نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ فوج تاحال اس بات کی شناخت نہیں کر سکی ہے کہ فضا میں پرواز کرنے والی یہ تینوں چیزیں کیا تھیں، کیسے ہوا میں معلق تھیں اور کہاں سے آرہی ہیں۔
پہلا غبارہ گران کے بعد واشنگٹن نے محکمہ خارجہ کے سیکریٹری اینٹونی بلنکن کا دورہ چین منسوخ کر دیا تھا۔
قبل ازیں 4 فروری کو امریکی فوج کے ایک لڑاکا طیارے نے جنوبی کیرولینا کے ساحل پر ایک مشتبہ چینی جاسوس غبارے کو مار گرایا تھا۔
بعد ازاں امریکی صدر جو بائیڈن کے احکامات پر امریکی لڑاکا طیارے نے الاسکا کے شمالی ساحل پر پرواز کرنے والی ایک اور نامعلوم اور پراسرار شے کو مار گرایا تھا جبکہ گزشتہ روز امریکی لڑاکا طیارے نے کینیڈا کی فضائی حدود میں پرواز کرنے والی ایک اور نامعلوم شےکو مار گرایا تھا۔
گلین وان ہرک نے کہا تھا کہ ’ہم کسی خلائی مخلوق کے امکان کی تصدیق یا تردید نہیں کرسکتے، ہم چاہیں گے کہ انٹیلی جنس کمیونٹی اور انسداد انٹیلی جنس کمیونٹی اس بات کا پتا لگائے‘۔
تاہم ایک اور دفاعی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ اشیا ماورائے زمین تھیں۔
ترجمان پینٹاگون بریگیڈیئر جنرل پیٹرک رائڈر نے ایک باضابطہ بیان میں کہا تھا کہ ’صدر جو بائیڈن کے حکم پر ایک امریکی ایف-16 لڑاکا طیارے نے مقامی وقت کے مطابق دوپہر 2 بج کر 42 منٹ پر امریکا-کینیڈا کی سرحد پر واقع جھیل ہورون کے اوپر پرواز کرنے والی اس چیز کو مار گرایا۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ نامعلوم چیز فضا میں 20 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہی تھی جو فوج کے لیے خطرے کا باعث نہیں تھی لیکن یہ کمرشل ائیر ٹریفک کے راستے میں مداخلت کر سکتی تھی۔
ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ چیز ساخت میں آکٹونل (8 کونوں والی) دکھائی دیتی تھی جس میں تاریں لٹکی ہوئی تھیں مگر ان سے بظاہر کچھ لٹکا ہوا دکھائی نہیں دیا۔
پینٹاگون نے کہا تھا کہ بظاہر یہ وہی چیز تھی جو حال ہی میں مونٹانا میں حساس فوجی مقامات کے قریب پائی گئی تھی جس کے بعد امریکی فضائی حدود کو بند کر دیا گیا تھا۔
گلین وان ہرک نے صحافیوں کو بتایاتھا کہ فوج اس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ہورون جھیل پر گرائی گئی اس نامعلوم چیز کے ملبے کو تلاش کرنے کی کوشش کرے گی۔
اس تازہ واقعے نے حالیہ ہفتوں کے دوران شمالی امریکا کے آسمانوں پر نمودار ہونے والی غیر معمولی چیزوں کے بارے میں نئے سوالات اٹھا دیے ہیں جن کے سبب امریکا اور چین کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوگیا ہے۔