• KHI: Maghrib 6:30pm Isha 7:46pm
  • LHR: Maghrib 6:02pm Isha 7:23pm
  • ISB: Maghrib 6:07pm Isha 7:30pm
  • KHI: Maghrib 6:30pm Isha 7:46pm
  • LHR: Maghrib 6:02pm Isha 7:23pm
  • ISB: Maghrib 6:07pm Isha 7:30pm

ننکانہ صاحب: قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں شہری کی ہلاکت پر 2 پولیس افسران معطل

شائع February 11, 2023
مشتعل ہجوم کو پولیس اسٹیشن کا دروازہ توڑتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے—فوٹو: اسکرین گریب
مشتعل ہجوم کو پولیس اسٹیشن کا دروازہ توڑتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے—فوٹو: اسکرین گریب

انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ضلع ننکانہ صاحب میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام پر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں سے ایک شہری کو بچانے میں ناکامی پر دو پولیس افسران کو معطل کردیا۔

پنجاب پولیس کے بیان کے مطابق آئی جی نے ’قرآن کی بےحرمتی‘ کے الزام میں شہری کے قتل کا نوٹس لے لیا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی، جس میں مبینہ طور پر ننکانہ صاحب میں پولیس اسٹیشن کے باہر مشتعل ہجوم کو دیکھا گیا ہے۔

ویڈیو میں ہجوم کو واربرٹن پولیس اسٹیشن کا مرکزی دروازہ توڑتے اور کھولتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور اس کے بعد مشتعل ہجوم باہر سے عمارت پر دھاوا بول دیتا ہے۔

دوسری ویڈیو میں ایک نوجوان کو دکھایا گیا ہے جو مبینہ طور پر ہجوم کا حصہ ہے اور وہ پولیس اسٹیشن کے اندر مسکرا رہا ہے جہاں ٹوٹے ہوئے شیشے اور فرنیچر بکھرا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔

پولیس نے بیان میں کہا کہ ’آئی جی ڈاکٹر عثمان انور نے ننکانہ سرکل کے ڈی ایس پی نواز ورک اور ایس ایچ او وار برٹن فیروز بھٹی کو فوری طور پر معطل کردیا ہے‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’آئی جی نے ڈی آئی جی اے بی امین بخاری اور ڈی آئی جی اسپیشل برانچ راجا فیصل کو موقع پر پہنچ کر انکوائری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے‘۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ ’کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں، چاہے وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو‘۔

انہوں نے کہا کہ ’واقعے کے ذمہ داروں، غفلت اور کوتاہی کے مرتکب عملے کے خلاف سخت محکمانہ اور قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی‘۔

وزیراعظم شہباز شریف کا واقعے کی تفتیش کا حکم

وزیراعظم شہباز شریف نے ننکانہ صاحب میں پیش آنے والے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی تفتیش کا حکم دے دیا ہے۔

وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ ’پولیس مشتعل ہجوم کو روکنے میں ناکام کیوں ہوئی، قانون کی بالادستی یقینی بنانی چاہیے، کسی کو قانون پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے‘۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ امن و امان یقینی بنانا اس فریضے کے ذمہ دار متعلقہ اداروں کی اولین ترجیح تھی۔

پاکستان علما کونسل کے چیئرمین طاہر محمود اشرفی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قابل افسوس ہے کہ جس طرح مشتعل ہجوم بے حرمتی کے الزام پر ایک شہری پر حملہ آور تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’ننکانہ صاحب میں قرآن کی بے حرمتی کے الزام پر شہری پر غیرانسانی تشدد اور قتل اور پولیس اسٹیشن پر حملہ قابل افسوس اور قابل مذمت ہے‘۔

قیام پاکستان سے توہین کے الزام پر 89 افراد قتل

یاد رہے کہ فروری 2022 میں پنجاب کے ضلع خانیوال کے دور دراز گاؤں میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزام میں درمیانی عمر کے شہر کو سنگسار کیا گیا تھا۔

اس سے قبل 3 دسمبر 2021 کو توہین مذہب کے الزام پر سری لنکا سے تعلق رکھنے والے فیکٹری منیجر کو سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے بے دردی سے قتل کیا تھا۔

تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) نے جنوری 2022 میں جاری ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ 1947سے2021 تک توہین مذہب کے الزامات میں 18 خواتین اور 71 مردوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اب تک 107 خواتین اور ایک ہزار 308 مردوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2011 سے 2021 کے دوران ایک ہزار 287 شہریوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے۔

محقیقین کا خیال تھا ’حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ توہین مذہب کے تمام کیسز میڈیا پر رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ 70 فیصد سے زائد کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔

اعداد و شمار میں دکھایا گیا تھا کہ 55 کیسز دارالحکومت اسلام آباد میں دائر کیے گئے، جو خیبر پختونخوا اور کشمیر میں رپورٹ ہونے والے مجموعی کیسز سے زیادہ ہیں۔

علاوہ ازیں پنجاب میں سب سے زیادہ ایک ہزار 98 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ سندھ دوسرے نمبر پر ہے جہاں توہین مذہب کے 177 کیسز رپورٹ ہوچکے تھے، اس ضمن میں خیبر پختونخوا میں 33، بلوچستان میں 12 اور آزاد جموں و کشمیر میں 11 کیسز سامنے رپورٹ کیے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ توہین مذہب کے قوانین 1860 میں انگریزوں کے دور میں بنائے گئے تھے۔

ابتدائی طور پر 1927میں تعزیرات ہند کے تحت توہین مذہب کے قوانین 295، 296، 297 اور 298 متعارف کروائے گئے، بعد ازاں توہین مذہب سے متعلق کتاب شائع کرنے پر مہاشے راجپال کو قتل کرنے والے مسلم کارپینٹر علم الدین کے کیس کے بعد 295 میں ایک اور ضمنی شق 295 اے شامل کی گئی۔

کارٹون

کارٹون : 20 ستمبر 2024
کارٹون : 19 ستمبر 2024