انتخابات میں سیکیورٹی نہیں دے سکتے، فوج کا وزارت داخلہ کو جواب
جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) نے کہا ہے کہ مسلح اور سول افواج سرحد پر اپنے معمول کے امور کے علاوہ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر داخلی سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف ہیں، اس لیے پولنگ اسٹیشنز پر سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی ممکن نہیں۔
پاک فوج کی طرف سے یہ جواب وزارت داخلہ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں دیا گیا۔
اس سے قبل رواں ہفتے کے آغاز میں الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو خط لکھا تھا جس میں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں میں انتخابات کے انعقاد کے لیے سول و مسلح فورسز کے دستے تعینات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
وزارت داخلہ نے گزشتہ روز الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں کہا کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ اضافے کے سبب سیکیورٹی کی پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے۔
خط میں متعدد سیکورٹی خدشات کا حوالہ دیا گیا جن میں سرحدی سیکورٹی، داخلی سلامتی کے فرائض، امن و امان کی بحالی اور شرپسندوں اور ریاست مخالف عناصر کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے چوکیوں پر سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی شامل ہے۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) ملک میں موجودہ سیکیورٹی صورتحال کے حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کر رہی ہیں، اس حوالے سے صوبائی حکومتوں کو بھی آگاہ کیا جاچکا ہے۔
خط میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ گزشتہ ماہ دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہوئے جن میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، ان میں پشاور پولیس لائنز کی ایک مسجد میں خودکش بم حملہ بھی شامل ہے، اس سانحے میں 80 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار شامل تھے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس تناظر میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کی جانب سے ملک کے امن و استحکام اور عوام کے جان و مال کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں پوری طرح مصروف ہیں۔
اس میں کہا گیا کہ دہشت گرد سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں بروئے کار لارہے ہیں جس کے سبب دیگر سرگرمیوں کے لیے بہت کم گنجائش باقی رہ گئی ہے۔
خط میں مزید روشنی ڈالی گئی کہ ایک دہشت گرد تنظیم نے سیاست دانوں کو کھلم کھلا دھمکیاں دی تھیں اور یہ خدشہ ظاہر کیا کہ انتخابی مہم کے دوران سیاسی قیادت ممکنہ ہدف ہو سکتی ہے۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی درخواست کو جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کے سامنے بھی اٹھایا گیا جو اس معاملے میں اہم اسٹیک ہولڈر ہے۔
خط کے مطابق جی ایچ کیو کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ مسلح اور سول افواج سرحد پر اپنے معمول کے امور کے علاوہ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر داخلی سلامتی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بھی مصروف عمل ہیں، علاوہ ازیں فوج کو مردم شماری کے بحفاظت انعقاد کے لیے بھی وسیع پیمانے پر اہلکاروں کو تعینات کرنا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس تناظر میں چاروں صوبوں میں قومی اسمبلی کی 64 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے انعقاد اور خیبرپختونخوا اور پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کے دوران سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی ناقابل عمل ہے، تاہم راجن پور میں ضمنی انتخابات کے لیے پاکستان رینجرز (پنجاب) بطور کوئیک رسپانس فورس موجود رہے گی۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ مذکورہ بالا صورتحال کے پیش نظر ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ (جی ایچ کیو) کے مطابق سول آرمڈ فورسز کی تمام حساس اور انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں پر سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی ممکن نہیں ہے۔
دہشت گردی کی لہر میں اضافہ
واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہو گئی ہے اور دہشت گرد گروہ ملک بھر میں پےدرپے حملے کر رہے ہیں۔
نومبر میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد سے اس کے حملوں میں تیزی آگئی ہے، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور افغانستان کی سرحد سے متصل علاقوں میں پولیس کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بلوچستان میں باغی گروہوں نے بھی اپنی پرتشدد سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔
جولائی 2018 کے بعد رواں سال کا پہلا ماہ سب سے ہلاکت خیز ثابت ہوا، گزشتہ ماہ ملک بھر میں ہوئے 44 دہشت گرد حملوں میں 139 فیصد زیادہ یعنی 134 افراد کی جانیں گئیں اور 254 زخمی ہوئے۔
حال ہی میں پشاور پولیس لائنز میں ایک مسجد کے اندر خودکش حملے میں 80 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار شامل تھے۔
قبل ازیں ٹی ٹی پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، بعد ازاں اس نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرلیا تھا تاہم ذرائع نے عندیہ دیا تھا کہ اس واقعے میں کالعدم ٹی ٹی پی کے کسی مقامی دھڑے کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔