نیب آرڈیننس میں کی گئی ترامیم سے کسی مخصوص طبقے کو فائدہ نہیں پہنچا، حکومتی وکیل
حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ اگست 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) میں کی گئی ترامیم سے ’کسی مخصوص طبقے‘ کو فائدہ نہیں پہنچا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے ترامیم کا دفاع کرنے والے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے سامنے دلائل دیے۔
انہوں نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ترامیم کے بعد پارلیمینٹیرینز کے ختم ہوجانے والے مقدمات کے فراہم کردہ چارٹ کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ کسی مخصوص طبقے کو فائدہ نہیں ہوا’۔
وکیل یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ نیب کی فراہم کردہ فہرست میں پارلیمینٹیرینز کی تعداد دیگر ملزمان بشمول بیوروکریٹس اور کاروباری افراد کے مقابلے میں نہ بہت زیادہ ہے نہ بہت کم۔
انہوں نے یہ دلائل اس وقت دیے کہ جب جسٹس منصور علی شاہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ ترامیم کے بعد احتساب قانون سے کسی مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچا۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کی دفعہ 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر حال ہی میں دی گئی رائے میں ’ڈاکٹرائن آف لیونگ ٹری‘ (آئینی تشریح کا وہ طریقہ جو آئین کو وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اصل ارادوں کو تسلیم کرتے ہوئے بدلنے کی اجازت دیتا ہے) لاگو کی تھی۔
تاہم وکیل نے اس بات پر زور دیا کہ عدالت عظمیٰ نے متعدد فیصلوں میں کئی بار آئین کو ایک ’زندہ دستاویز قرار دیتے ہوئے اس تصور کو استعمال کیا ہے، انہوں نے وضاحت کی کہ لیونگ ٹری کا خیال غیر معمولی یا منفرد نہیں ہے، یہ کینیڈا کا تصور ہے جو کہتا ہے کہ آئین آرگینگ ہے اور اسے بدلتے وقت کے مطابق ڈھالنے کے لیے وسیع اور ترقی پسند انداز میں پڑھا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 1999 سے لے کر جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری کے زمانے کے دوران ہم نے ہم نے کچھ تجربات ملاحظہ کیے جن کے نتیجے میں ایک نیا تصور ابھرا جس کے تحت عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار میں اضافہ کیا گیا یوں عدلیہ کو بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے ٹچ اسٹون پر ضرب لگانے کے وسیع اختیارات دیے گئے۔
عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو نئے تصور کو موقع کیوں نہیں دینا چاہیے۔
وکیل نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ کوئی بھی سپریم کورٹ کے سامنے یہ بحث نہیں کر رہا کہ قانون ساز عدالتوں کے کسی بھی اختیار کو چھیننے کے لیے قانون بنا سکتے ہیں، کہا کہ عدالتوں کا آئینی نقطہ نظر ہمیشہ سے مطابقت رکھتا ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے محض کسی قانون پر ضرب لگانے کے بجائے پہلے آئین کی اس شق کی نشاندہی کی جس کی قانون کے ذریعے خلاف ورزی گئی تھی اور پھر اسے قانون سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی۔
توشہ خانہ ریفرنس
دریں اثنا، ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل ممتاز یوسف کی جانب سے پیش کی گئی تفصیلی رپورٹ میں نیب نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ احتساب قانون میں 2022 کی ترامیم کے بعد چونکہ احتساب عدالتوں کا دائرہ اختیار چھین لیا گیا تھا اس لیے سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف توشہ خانہ ریفرنسز واپس کردیے گئے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اسی طرح پی ٹی آئی حکومت کے دوران جاری کیے گئے آرڈیننسز یا 2022 میں موجودہ پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے کی گئی ترامیم کے ذریعے، نیب کی جانب سے قائم کیے گئے متعدد ریفرنسز احتساب عدالتوں کے دائرہ اختیار کی کمی کی وجہ سے یا تو ختم کر دیے گئے یا واپس کر دیے گئے۔
تاہم نیب نے کہا کہ وہ جلد ہی ایک تازہ ترین رپورٹ پیش کرے گا جس میں عدالت کی طلب کردہ معلومات کے بارے میں واضح الفاظ میں وضاحت کی جائے گی اور یہ بھی بتایا جائے گا کہ بیورو نے پلی بارگین کے ذریعے کتنی رقم برآمد کی اور کہاں خرچ کی گئی۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جب کوئی قانون بدنیتی کی بنیاد پر بنایا جائے تو کیا عدالت عمل کر سکتی ہے حالانکہ اس سے کسی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
وکیل مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ کسی پر بددیانتی کا الزام لگانا سب سے آسان کام ہے لیکن ثابت کرنا سب سے مشکل کام ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عدالت عظمیٰ کو قانون سازی کو ختم کرنے کے لیے آئین میں ایک محور تلاش کرنا ہوگا کیونکہ اسلامی اخلاقیات کی بنیاد پر یا اسلامی احکام کی خلاف ورزی کے لیے قانون کو منسوخ کرنا کافی نہیں ہوگا۔