مکی آرتھر کو ایک بار پھر عہدہ دینا ’پاکستان کرکٹ پر طمانچہ‘ ہے، مصباح الحق
پاکستان کے سابق کپتان اور کوچ مصباح الحق نے پی سی بی کی جانب سے مکی آرتھر کو ایک بار پھر عہدہ دینے کو پاکستان کرکٹ پر طمانچہ قرار دے دیا۔
ایسے میں کہ جب مکی آرتھر کے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر کے عہدے پر واپس آنے کا امکان ہے، مصباح الحق نے سابق پاکستانی کھلاڑیوں پر نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور اس وقت نجم سیٹھی کی زیر نگرانی کام کرنے والے پاکستان کرکٹ بورڈ کو کوچنگ کے لیے غیر ملکی کوچ لانے پر مجبور کرنے کا الزام لگایا۔
2016 سے 2019 تک پاکستان ٹیم کی کوچنگ کرنے والے مکی آرتھر کے ساتھ پی سی بی کی بات چیت 3 ہفتے قبل تعطل کا شکار ہوگئی تھی لیکن حالیہ دنوں میں فریقین کے درمیان مذاکرات میں تیزی آگئی ہے، کرکٹ بورڈ ان کے ساتھ بطور ٹیم ڈائریکٹر معاہدہ کرنے کے قریب ہے جب کہ گزشتہ دور میں وہ بطور ہیڈ کوچ ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔
اگر مکی آرتھر پاکستانی کوچ کی ذمہ داریاں قبول کرلیں تو بھی وہ ڈربی شائر کے ساتھ طویل مدتی معاہدہ برقرار رکھیں گے، فریقین نے ایک معاہدہ اور شیڈول تیار کیا ہے جس کے مطابق وہ دونوں عہدے برقرار رکھ سکیں گے۔
یہ اقدام عالمی کرکٹ کے لیے غیر معمولی ہوگا جس میں مکی آرتھر ہر دورے پر پاکستانی ٹیم کے ساتھ نہیں ہوں گے لیکن ان کے پاس ان کا منتخب کردہ سپورٹ اسٹاف گروپ ہوگا جو آپریشنز چلائے گا۔
مصباح الحق نے معروف کرکٹ ویب سائٹ ای ایس پی این کرک انفو کو بتایا کہ یہ ہمارے کرکٹ سسٹم پر ایک طمانچہ ہے کہ ہم ایک ہائی پروفائل فل ٹائم کوچ بھی تلاش کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ شرم کی بات ہے کہ بہترین کوچ پاکستان آنا نہیں چاہتے اور ہم ایسے شخص کو کوچ کے عہدے پر رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں جو پاکستان کو سیکنڈ آپشن کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس شرمناک صورتحال کے لیے میں اپنے نظام کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوں جو اتنے کمزور خطوط پر استوار ہے کہ کوئی بھی اس نظام کا استحصال کر سکتا ہے۔
سابق کپتان نے کہا کہ ہمیں خود کو موردِ الزام ٹھہرانا چاہیے کہ ہم نے اپنے ہی لوگوں کی بے عزتی کی، ان کی ساکھ خراب کی اور ان کا برا تشخص اجاگر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اور سابقہ کھلاڑی ایک دوسرے کا احترام نہیں کرتے، میڈیا اور سابق کھلاڑی ریٹنگ کے لیے اپنے یوٹیوب چینلز کا استعمال کرتے ہوئے ہماری کرکٹ کی ساکھ اور اقدار کو نقصان پہنچا رہے ہیں جس کے نتیجے میں یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم نااہل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی کرکٹ شائقین ہمیشہ خفا اور نالاں رہتا ہے، وہ میڈیا پر چلنے والی منفی خبریں دیکھ کر غلط تاثر لیتا ہے، کھلاڑیوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف رنجش اور حقارت کے ساتھ بات کرنے سے ہماری کمیونٹی کی قدر کم ہوتی ہے اور منفی تاثر بن جاتا ہے، اس طرح کی بات چیت کے دوران کھیل کے معروضی اور تعمیری نکات کو کم ہی موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ ملک کا سب سے مقبول کھیل ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کا ذکر کم ہی ٹھیک طریقے سے شہ سرخیوں میں کیا جاتا ہے۔
مصباح الحق نے کہا کہ یہ افراتفری ہے، سابق کرکٹرز قومی چینلز پر اپنے ساتھی کرکٹرز کا مذاق اڑاتے ہیں جس سے شائقین کو غلط تاثر جاتا ہے، ہمارے ملک کے کرکٹ سسٹم میں عزت و احترام اور سازگار ماحول نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی سی بی ہمیشہ غیر ملکی کوچز کی حمایت کے لیے تیار ہے لیکن کبھی بھی مقامی کوچز کو سپورٹ نہیں کرتا، انہیں بیرون ملک کوچ رکھنے کا شوق ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مقامی لوگوں کو آسانی سے سیاست زدہ کیا جاسکتا ہے اور وہ نااہل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کیا ہم جانتے ہیں کہ یہ پی سی بی کی بیوروکریسی ہے جس نے اس کو سیاست زدہ کیا ہے؟ جب وہ بیوروکریسی دباؤ میں آتی ہے تو وہ مقامی کوچز کو قربان کردیتے ہیں اور ان کا محاسبہ اور احتساب کبھی نہیں ہوتا، یہ بدانتظامی اور نظام میں ہونے والی مسلسل تبدیلیاں ہیں جو ایک مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہم کبھی بھی اپنی کرکٹ کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تلاش نہیں کر پاتے۔
سابق کوچ نے کہا کہ اب ایک عام بیانیہ ہے کہ پاکستان کرکٹ میں ایک بھی قابل آدمی نہیں ہے اور وہ باہر دیکھنے پر مجبور ہیں، بھارت جیسی کامیاب ٹیمیں مکمل طور پر مقامی کوچز کی جانب منتقل ہو چکیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہاں کی پالیسیاں اس قدر غیر مستقل اور مبہم ہیں کہ ہم کبھی بھی اس پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے قابل نہیں ہو پاتے جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کچھ بہت اچھے لوگ ہیں جیسے محمد اکرم، عاقب جاوید، انضمام الحق، وقار یونس وغیرہ جو اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں لیکن ان کی شہرت کو بری طرح سے داغدار کردیا گیا اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ عہدے کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ احسان مانی کے دور میں پی سی بی نے نوجوان سابق کرکٹرز کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن بورڈ کے اندرونی ورکنگ کلچر کی وجہ سے کئی سابق کھلاڑی اس میں شمولیت سے گریزاں تھے۔
مصباح الحق نے کہا کہ وسیم اکرم اس کی ایک بہترین مثال ہیں جنہوں نے ہمیشہ خود کو پی سی بی میں ملازمت سے دور رکھا اور عوامی نظروں میں آنے والے عہدوں سے ہٹ کر مختصر مدت کے معاہدوں کے تحت کام کرنے کو ترجیح دی۔
انہوں نے کہا کہ انضمام نے بطور چیف سلیکٹر شمولیت اختیار کی اور اپنی مدت پوری کرنے کے بعد آئندہ طویل مدتی ذمے داری نہ لینے کا فیصلہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ احسان مانی کے دور میں پی سی بی نے مقامی کوچز کی ٹریننگ کے لیے ایک منصوبہ بنایا تھا اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو پلیئر اور کوچ کی ترقی کے لیے ہائی پرفارمنس سینٹر میں تبدیل کر کے اس کی اصلاح کی تھی اور بڑی تعداد میں کوچز کو بھرتی کیا تھا، لیکن رمیز راجا چیئرمین پی سی بی بننے کے بعد گراس روٹ اور ڈومیسٹک لیول پر بیرون ملک کوچز لائے اور پورے ڈھانچے کو ری سیٹ کیا۔