ہم سودی نظام کو فروغ دے کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ نہیں کرسکتے، وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ ہم ملک میں سودی نظام کو فروغ دے کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ نہیں کرسکتے۔
نیشنل اسلامک اقتصادی فورم سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسلامی نظام معیشت کا لائحہ عمل کیسا ہوگا اور اس کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں، یہ موضوع میرے دل کے بہت نزدیک ہے اور میری خواہش ہے کہ جتنا جلد ہوسکے ہم اپنے ملک میں سود کے نظام کا خاتمہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ یقیناً ایسی کانفرنسز، مباحثے اور کاوشیں اس نیک مقصد کے حصول میں حکومت کے لیے مددگار ثابت ہوں گی۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ میں نے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سعید احمد کو یہ چیلنج اور یہ ذمہ داری دلوائی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پوری کوشش کی جو کچھ بھی حکومت تیزی سے کرسکے مثلاً ٹیکس میں مساویت نہیں تھی اسے حل کیا گیا، خصوصی ترمیم کی گئی، سیکیورٹی ایکسچینج کے حوالے سے اقدامات کیے گئے، وزارت خزانہ میں ایک سینیئر افسر کی قیادت میں ایک ونگ قائم کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فنانس ایکٹ بی 2016 میں اسلامی بینکاری کو تیز رفتار سے ترقی دینے کے لیے لسٹڈ مینوفیکچرنگ کمپنیوں کو 2 فیصد ٹیکس کی رعایت دی گئی، جس کی صرف ایک شرط بیلنس شیٹ کا شریعت کے مطابق ہونا تھا۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ یہ کاوش جاری تھی جس کے فوائد بھی ملے، اس وقت صرف پاکستان کا واحد اسلامی بینک ’میزان بینک‘ تھا جس کی تقریباً 100 شاخیں تھیں، لیکن اگر آپ اچھی نیت کرلیں تو اس کے نتائج بھی اچھے نکلتے ہیں اور وہ 100 برانچز والا بینک آج ایک ہزار برانچز پر مشتمل بینک بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ایک وقفہ آیا جس کے دوران میں نے دیکھا ایک اور بینک نے اس جانب پیش قدمی کی جو فیصل بینک تھا، صرف ایک چھوٹا سا سیکشن بنا لینا کافی نہیں ہے، انہوں نے کیا اور اتنی برکت ہوئی کہ اگر اس کی گزشتہ 4 سال کی بیلنس شیٹ دیکھی جائے تو اس اقدام سے قبل اور بعد کی بیلنس شیٹ میں فرق دیکھ لیں۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ مجھے یہاں تک اطلاع ملی کے جون کے مہینے تک اسلامی بینکوں میں اتنے زیادہ ڈپازٹس تھے کہ وہ مزید ڈپازٹس لینے سے معذرت کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک چیز واضح ہے کہ اگر سب مل کر اپنی پوری کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ جو وفاقی شرعی عدالت نے نظام کو سود سے پاک کرنے کے لیے 5 سال کا وقت دیا ہے وہ نہ ہوسکے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ جب یہ فیصلہ آیا تو خاصی مزاحمت سامنے آئی اور آناً فاناً اسٹیٹ بینک اور حکومت کے زیر اثر نیشنل بینک کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر بینکس نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کردی۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے یہ خبر پڑھی تو میں اور میاں نواز شریف اکٹھے بیٹھے تھے اور ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر ہم حکومت میں آئے تو یہ اپیلیں واپس لی جائیں گی، ہم پوری کوشش کریں گے۔
ان کا کہنا تھا اس سے پہلے ہم نے جو 5 سال گزارے اس میں ملک ترقی کر رہا تھا، اس کی پوری دنیا تعریف کر رہی تھی، اشیائے خورونوش کی مہنگائی صرف 2 فیصد جبکہ عمومی مہنگائی محض 6.4 فیصد تھی، ملک کی اسٹاک بلندیوں کو چھو رہی تھی اور جنوبی ایشیا کی سب سے بہترین جبکہ دنیا کی پانچویں بہترین اسٹاک تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ نیت اور برکت کی وجہ سے تھا اور پاکستان 6.1 فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہا تھا اور عالمی ادارے نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان 2030 تک جی 20 ممالک میں شامل ہوجائے گا۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ 5 سال کے تجربوں نے اسے وہاں لاکر کھڑا کردیا ہے کہ 2022 میں یہ دنیا کی 47ویں معیشت بن چکا جو پہلے 24ویں معیشت تھا۔
انہوں نے کہا کہ جو آج مہنگائی ہے، افراتفری ہے، ایل سیز کی شکایتیں ہیں یہ سب کی سب بدانتظامی اور حکمرانی نہ ہونے کا نتیجہ ہے اور ہمیں سبق سیکھنا اور اللہ سے توبہ کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اور میاں نواز شریف نے فیصلہ کیا تھا کہ جتنی جلد ممکن ہو ہم اپنے حقیقی فیصلوں کو دہرائیں گے اور ان پر عملدرآمد کریں گے اور چند ہفتوں میں ہی ملک میں معیشت اتنی تباہ ہوچکی تھی کہ مجھے نہیں پتا تھا کہ اتنی جلدی کہا جائے گا کہ چوتھی مرتبہ یہ ذمہ داری سنبھالیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جونہی میں واپس آیا تو ابتدائی ہفتوں کے دوران میں نے جو پہلا کام کیا وہ یہ کہ گورنر اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کو ہدایت کی کہ فوری طور پر یہ درخواست واپس لی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم سودی نظام کو فروغ دے کر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ نہیں کرسکتے، کم از کم ہم کوشش کریں اور آج کی کاوش بھی اسی کی جانب ایک قدم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپیلیں واپس لے کر دوبارہ ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے جس کا سربراہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کو بنایا گیا ہے جس میں علمائے کرام، صنعتکار، بینکرز شامل ہیں اور کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوچکا ہے جسے ہم تیزی سے آگے لے کر چلیں گے۔