شیخ رشید نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی تعیناتی لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردی
سابق وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن رضا نقوی کی تعیناتی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
اس سے قبل شیخ رشید نے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی تقرری سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے ان کی تعیناتی کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی جسے سپریم کورٹ آفس نے گزشتہ روز متعدد اعتراضات عائد کرکے واپس کردیا تھا۔
سپریم کورٹ سے درخواست واپس کیے جانے کے بعد شیخ رشید کی جانب سے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی وساطت سے نگران وزیر اعلیٰ کے تقرر کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، درخواست میں وفاقی حکومت، صدر پاکستان، الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں پرویز الہیٰ، حمزہ شہباز، گورنر پنجاب اور نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کو بھی فریق بنایا گیا ہے، درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ آئین میں طریقہ کار وضع کیا گیا ہے کہ کس طرح نگران وزیر اعلیٰ لگایا جائے، موجودہ نگران وزیر اعلی بنانے کے عمل میں بدنیتی شامل ہے۔
شیخ رشید نے درخواست میں کہا کہ محسن نقوی کے نام پر پہلے ہی اعتراضات اٹھ گئے تھے، اعتراضات کے باوجود محسن نقوی کو ہی وزیراعلیٰ بنا دیا گیا، الیکشن کمیشن نے باقی 3 ناموں کو مسترد کرنے کی وجوہات نہیں بتائیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عالیہ نگران وزیراعلیٰ کی تعیناتی کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے اور محسن نقوی کو بطور نگران وزیر اعلیٰ کام کرنے سے روکے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی اور شیخ رشید نے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کا تقرر سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے ان کی تعیناتی کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی، تاہم گزشتہ روز سپریم کورٹ آفس نے ان کی درخواست متعدد اعتراضات کے ساتھ واپس کردی تھی۔
سپریم کورٹ دفتر نے درخواست پر غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ درخواست میں نگراں وزیراعلیٰ کا نام لیا گیا جب کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت چیف ایگزیکٹو کو فریق نہیں بنایا جا سکتا، اس شق میں صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور وزرا وغیرہ کو مکمل استثنیٰ دیا گیا ہے۔
درخواست واپس کرتے ہوئے رجسٹرار آفس نے اعتراض اٹھایا کہ درخواست گزار نے تضحیک آمیز اور متنازع زبان استعمال کی، درخواست گزار یہ بتانے میں بھی ناکام رہا کہ موجودہ کیس میں عوامی مفاد کے پہلو کی نشاندہی کرنے میں بھی ناکام رہا۔
مزید کہا گیا کہ درخواست گزار نے یہ بھی نہیں بتایا کہ درخواست کس مقصد کے لیے عدالت عظمیٰ میں پیش کی گئی، اس کے علاوہ درخواست گزار نے ریلیف کے حصول کے لیے قانون کے تحت دستیاب کسی اور مناسب فورم سے بھی رجوع نہیں کیا اور نہ ہی ایسا کرنے کا کوئی جواز فراہم کیا۔
شیخ رشید نے سردار عبد الرازق ایڈووکیٹ کے ذریعے درخواست سپریم کورٹ میں دائر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ محسن نقوی اپوزیشن مخالف اور حکومتی مددگار کے طور پر سامنے آئے۔
شیخ رشید نے مؤقف اپنایا تھا کہ محسن نقوی پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے آپریشن کے اہم کردار ہیں، محسن نقوی کی موجودگی میں پنجاب میں صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہوسکتے۔
اس موقع پر شیخ رشید کے وکیل سردار عبدالرازق نے کہا تھا کہ محسن نقوی آصف زرداری کے فرنٹ میں ہیں، حکومت تبدیلی میں بھی محسن نقوی نے اہم کردار ادا کیا تھا، الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ فری اینڈ فیئر الیکشن کروائے جائیں۔
سردار عبدالرازق نے کہا کہ نگران سیٹ اپ جانبدار ہونے سے صاف شفاف الیکشن نہیں ہو سکیں گے، آرٹیکل 218 کی ذمہ داری الیکشن کمیشن نے پوری نہیں کی۔
اسی طرح سے سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے منگل کے روز پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری اسد عمر کی جانب سے دائر درخواست بھی واپس کردی تھی۔
آفس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت یا قرارداد فراہم نہیں کی گئی کہ درخواست گزار پارٹی کا جنرل سیکریٹری ہے اور یہ کہ درخواست سیاسی جماعت کی جانب سے دائر کی گئی، درخواست میں تضحیک آمیز زبان استعمال کی گئی۔
تحریک انصاف نے بطور سیاسی جماعت اور اسد عمر نے بطور سیکریٹری جنرل محسن نقوی کے تقرر کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ محسن نقوی کو بطور نگران وزیر اعلی کام کرنے سے روکا جائے۔
پی ٹی آئی نے عدالت عظمیٰ سے مزید درخواست کی کہ محسن نقوی کا بطور نگران وزیر اعلیٰ تعیناتی کا نوٹیفکیشن غیر آئینی قرار دیا جائے۔