• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

قوم سوال کر رہی ہے دہشتگردوں کو کون واپس لایا؟ وزیراعظم

شائع February 1, 2023
وزیراعظم نے کہا کہ یہاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں حقائق پر بات کررہا ہوں — فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم نے کہا کہ یہاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں حقائق پر بات کررہا ہوں — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اس سے زیادہ بدقسمتی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ دہشت گردی کی لہر دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، سوال پیدا ہورہا ہے کہ ان دہشت گردوں کو دوبارہ کون واپس لایا؟

وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام کی ہمت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے، پشاور حملے میں جانیں قربان کرنے والے شہدا کو پاکستان ہمیشہ یاد رکھے گا۔

انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات کی مد میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت گزشتہ 10 برسوں میں 417 ارب روپے خیبرپختونخوا کو ادا کیے جاچکے ہیں تاکہ اس حوالے سے ان کی جائز ضروریات پوری ہوسکیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ 417 ارب روپیہ خاص طور پر انسداد دہشت گردی کے اقدامات کے لیے مختص تھا، خدا جانے اتنے بڑی رقم کہاں چلی گئی، 10 سال وہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت رہی، آج وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں تو یہ 417 ارب روپے کہاں گئے؟ کہاں استعمال ہوئے؟

انہوں نے کہا کہ اس تمام عرصے کے دوران کسی اور صوبے کو اس مد میں کوئی رقم نہیں دی گئی، صرف خیبرپختونخوا کو یہ رقم ادا کی گئی، میں یہاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کر رہا بلکہ حقائق پر بات کر رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ کو 40 ارب روپیہ سال کا مل رہا ہو تو پھر آپ کا یہ شکوہ بنتا نہیں ہے کہ ہمارے محکمہ انسداد دہشت گردی میں کمزوریاں ہیں یا ان کے پاس مطلوبہ سامان اور تربیت نہیں ہے، یہ سب باتیں ناقابل یقین ہیں، فنڈز نہ ملنے کا شکوہ کرنا حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ آپریشن ’ردالفساد‘ اور آپریشن ’ضرب عضب‘ کے ذریعے دہشت گردوں کو کاری ضرب لگی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب نے حصہ ڈالا ہے، راولپنڈی کی کسی مسجد میں ہونے والے ایک دھماکے میں فوجی افسران اور ان کے بچے بھی شہید ہوگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ بدقسمتی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ دہشت گردی کی لہر دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ان دہشت گردوں کو دوبارہ کون واپس لایا؟ آج پوری قوم یہی سوال پوچھ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا دوبارہ کس طرح دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے، فی الفور مناسب اقدامات نہ کیے تو یہ دہشت گردی دوبارہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں پھیل جائے گی۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ہمیں اس کا جائزہ لینا ہوگا، کس نے کہا تھا کہ یہ دہشت گرد جہادی ہیں اور پاکستان کے دوست ہیں، کس نے کہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور یہ پاکستان کے امن اور ترقی کا حصہ ہوں گے۔

پشاور دھماکے میں شہدا کی تعداد 101 ہوگئی

دریں اثنا خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں 2 روز قبل پولیس لائنز کے قریب واقع مسجد میں ہونے والے دھماکے سے شہید ہونے والوں کی تعداد 101 ہوگئی ہے۔

محکمہ صحت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ دھماکے میں زخمی ہونے والا ایک اور شہری ہسپتال میں دم توڑ گیا ہے۔

محکمہ صحت کے مطابق دھماکے میں زخمی ہونے والے 59 شہری ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، ان میں سے 8 زخمیوں کی حالت تشویشن ناک ہے جبکہ 51 کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

ترجمان لیڈی ریڈنگ ہسپتال ایم ٹی آئی محمد عاصم نے بتایا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں اس وقت دھماکے میں زخمی ہونے والے 49 شہری زیرِ علاج ہیں، زخمیوں میں سے 7 اس وقت آئی سی یو میں داخل ہیں جبکہ ابھی تک 101 لاشیں ہسپتال لائی جاچکی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ زخمیوں میں سے مزید 4 کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے، تمام زخمیوں کو مفت طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔

اہم گرفتاریاں

علاوہ ازیں پشاور پولیس چیف محمد اعجاز خان نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے کے حوالے سے تحقیقات کے دوران اہم گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ خودکش حملہ آور پولیس کے انتہائی محفوظ علاقے میں کیسے داخل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ حملے کے لیے اندرونی عوامل کی جانب سے سہولت کاری کے خدشے کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جارہے ہیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

دوسری جانب سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جارہے ہیں، ان سے کب تک ڈریں گے، ریاست کہاں ہے؟

سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران پشاور خودکش حملے کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دہشت گردوں سے کب تک ڈریں گے؟ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو یہ دو وہ دو، کبھی کہا جاتا ہے دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، اس دوران ریاست کہاں ہے؟

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جارہے ہیں؟ آج دہشت گرد 2 بندے ماریں گے، کل کو 5 بندے مار دیں گے، پتa نہیں ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک جج نے دہشت گردی کے واقعے پر رپورٹ دی اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا، ہمارے ایک جج کو مار دیا گیا کسی کو پرواہ ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ لمبی داڑھی رکھنے سے بندہ مسلمان یا اچھا انسان نہیں بن جاتا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024