• KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am

علی ظفر کی پہلی بار خود پر لگے جنسی ہراسانی کے الزامات پر گفتگو

شائع January 24, 2023
علی ظفر نے دوران انٹرویو میشا شفیع کا نام نہیں لیا—اسکرین شاٹ
علی ظفر نے دوران انٹرویو میشا شفیع کا نام نہیں لیا—اسکرین شاٹ

گلوکار و اداکار علی ظفر نے پہلی بار خود پر گلوکارہ میشا شفیع کی جانب سے لگائے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات پر بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں پہلے ہی دھمکی دی گئی تھی کہ ان کے ساتھ ’بُرا‘ کیا جائے گا۔

علی ظفر نے پہلی بار مذکورہ معاملے پر ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے نہ تو میشا شفیع کا نام لیا اور نہ ہی دیگر ملزمان اور واقعے سے منسلک کمپنیوں کے نام بتائے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ ان پر الزام لگائے جانے سے قبل ہی انہیں بلیک میل کرکے دھمکی دی گئی تھی ان کے ساتھ ’بُرا‘ کیا جائے گا۔

علی ظفر پر گلوکارہ میشا شفیع نے اپریل 2018 میں جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ساتھی گلوکار نے انہیں اس وقت نشانہ بنایا جب وہ بچوں کی ماں بن چکی تھیں۔

میشا شفیع نے علی ظفر کے خلاف ٹوئٹ میں الزامات عائد کیے تھے، جس کے بعد گلوکارہ نے گورنر پنجاب اور لاہور ہائی کورٹ سے بھی جنسی ہراسانی کے الزامات سے متعلق رجوع کیا تھا مگر ان کی درخواستیں مسترد ہوگئی تھیں۔

میشا شفیع کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد علی ظفر نے ان کے خلاف لاہور کی مقامی عدالت میں بدنام کرنے کے الزامات کے تحت ہتک عزت کا کیس 2018 میں ہی دائر کیا تھا جو تاحال زیر سماعت ہے اور پانچ سال گزر جانے کے باوجود اس کا کوئی حل نہیں نکلا۔

مذکورہ کیس کے علاوہ بھی علی ظفر اور میشا شفیع نے ایک دوسرے کے خلاف متعدد کیسز دائر کر رکھے ہیں اور ان کے تمام کیسز کا کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔

مذکورہ کیسز میں علی ظفر اور ان کے گواہوں کے بیانات مکمل ہوچکے ہیں جب کہ ان سے جرح بھی کی جا چکی ہے، تاہم میشا شفیع کی اپنی اور ان کے کچھ گواہوں کی جرح باقی ہے۔

مذکورہ کیس کے زیر سماعت ہونے کی وجہ سے علی ظفر نے حالیہ ٹی وی انٹرویو میں اس پر کھل کر بات نہیں کی، تاہم کسی کا نام لیے بغیر خود پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے جانے کی کہانی بتائی۔

علی ظفر نے ایکسپریس ٹی وی کے شو’ دی ٹاک ٹاک’ میں بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ دراصل ان پر اس وقت الزامات لگائے گئے جب انہیں ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے میوزک کا بہت بڑا پروجیکٹ دیا اور اس کی فیس کروڑوں روپے میں تھی۔

علی ظفر کے مطابق وہ منصوبہ پہلے کسی اور بڑے گلوکار کے پاس تھا مگر کمپنی نے اس کے ساتھ معاہدہ ختم کیا۔

گلوکار نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ ملٹی نیشنل کمپنی نے پھر ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور جیسے ہی ان کے کمپنی کے ساتھ مذاکرات ہونا شروع ہوئے، سوشل میڈیا پر کچھ جعلی اکاؤنٹس بنا کر ان کے حوالے سے نامناسب باتیں لکھی جانے لگیں۔

علی ظفر نے دعویٰ کیا کہ ملٹی نیشنل کمپنی سے معاہدہ ہونے کے بعد انہیں باضابطہ طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی اور انہیں دھمکی دی گئی کہ وہ معاہدے سے الگ ہوجائیں، ورنہ ان کے ساتھ غلط کیا جائے گا۔

گلوکار کا کہنا تھا کہ انہوں نے دھمکی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ کام کرنا شروع کیا، کیوں کہ مذکورہ معاہدے کی رقم کروڑوں روپے میں تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جیسے ہی انہوں نے کمپنی کے منصوبے کی شوٹنگ شروع کی، اسی دن ہی ان کے خلاف ایک ٹوئٹ کی گئی، جس نے ان کی پوری زندگی بدل دی۔

انہوں نے پوری گفتگو میں میشا شفیع کا نام نہیں لیا اور نہ ہی انہوں نے ملٹی نیشنل کمپنی کا نام لیا۔

علی ظفر کے مطابق مذکورہ ٹوئٹ کے بعد انہیں تمام منصوبوں سے الگ کردیا گیا اور انہیں کام بھی نہیں دیا گیا اور وہ کم از کم دو سال تک بغیر کام کے گھر میں فارغ بیٹھے رہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ علی ظفر کو کوئی مالی نقصان نہیں پہنچا، وہ ان کا ٹیکس ریکارڈ دیکھ لیں، انہیں حقیقت کا علم ہوجائے گا۔

علی ظفر نے بتایا کہ جیسے ہی ان پر الزامات لگے، لوگ ان سے نفرت کرنے لگے لیکن پھر آہستہ آہستہ لوگوں کو سمجھ آئی اور ان کی عزت بحال ہوئی۔

گلوکار نے الزام لگانے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ان پر الزامات نہ لگاتے تو وہ زندگی کو اچھی طرح سمجھ نہیں پاتے اور اس میں بھی کوئی خدا کی حکمت ہوگی کہ انہیں ایسے مشکل امتحان میں ڈالا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کا کیس پانچ سال سے لٹکا ہوا ہے، جس محترمہ نے ان پر الزام لگایا تھا وہ جرح کے لیے عدالت آنے کو تیار نہیں۔

انہوں نے دلیل دی کہ وہ بار بار عدالت جاتے ہیں، کیوں کہ وہ سچ پر ہیں جب کہ محترمہ عدالت سے بھاگتی رہتی ہیں، کیوں کہ ان کے پاس کوئی سچائی نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024