’مقامی حکومتیں عوام میں عدم اطمینان کو کم کرسکتی ہیں‘
چند ہفتے قبل مجھے 15 جنوری کو منعقد ہونے والے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے گفتگو کے لیے ٹوئٹر اسپیس پر مدعو کیا گیا۔ چونکہ اس شرکت کے لیے تیار ہونے یا پھر سرد شام میں گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں تھی اس وجہ سے میں نے اس میں شرکت کرلی۔
بلدیاتی انتخابات کا موضوع مین اسٹریم میڈیا کے باہر کافی مقبول ہے، مین اسٹریم میڈیا میں تو اکثر بس فوری نوعیت کے معاملات پر ہی گفتگو ہوتی ہے۔
ٹوئٹر اسپیس کا تجربہ کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ اس قسم کے مباحث میں عموماً کوئی نہ کوئی جملہ ذہن میں رہ جاتا ہے۔ اس بار ایک شریک مقرر کی جانب سے مدعا اٹھایا گیا کہ مقامی حکومتیں معاشرے میں نچلی سطح تک سرایت کی ہوئی بدامنی اور عدم اطمینان کو ختم کرنے کا راستہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
ہمارے پاس اس حوالے سے کئی مثالیں موجود ہیں جیسے کہ گوادر کی حق دو تحریک سے لے کر سابقہ فاٹا کی پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) یا پھر وہ نوجوان جنہوں نے اسٹیٹس کو سے تنگ آکر پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔
یہ عدم اطمینان صرف بنیادی حقوق اور خدمات کی عدم فراہمی کے باعث نہیں ہے بلکہ اقتصادی صورتحال اور نوجوان طبقے کی ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ تعداد کی وجہ سے بھی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور بگڑتے ہوئے معاشی، سماجی اور انسانی حالات کی وجہ سے عدم اطمینان میں مزید اضافہ ہوگا جس سے بلآخر بدامنی پھیلے گی۔
اب بلوچستان کی ہی مثال لے لیں جہاں 2006ء سے حکومتیں تو بدل رہی ہیں لیکن اس کے باوجود پُرتشدد واقعات میں کمی نہیں آرہی ہے۔ یہ نکتہ پہلے بھی اٹھایا جاچکا ہے کہ اس کے خاتمے میں قبائلی سرداروں کے بجائے نوجوانوں کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔
پی ٹی ایم شاید اس رجحان میں ایک نیا اضافہ ہے۔ ان کے رہنماؤں محسن داوڑ اور علی وزیر کی کوریج کی پابندی نے تحریک کو کمزور نہیں کیا۔ گزشتہ برس عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوران منظور پشتین کی تقریر بھی اس بات کا ثبوت ہے۔
بظاہر یہ مسائل ہماری سیاسی جماعتوں کے لیے بھی پریشان کُن نہیں ہیں کیونکہ وہ اقتدار کو تقسیم یا صوبائی حکومتوں سے آگے منتقل کرنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی ہیں۔ پھر چاہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) یا مسلم لیگ (ن) ہی کیوں نہ ہوں جنہوں نے تمام تر تنقید کے باوجود بالخصوص کراچی جیسے شہر میں کمزور بلدیاتی قانون بنایا، یا پھر پی ٹی آئی ہو جس نے خیبرپختونخوا میں کمزور بلدیاتی حکومتیں قائم کیں اور 2018ء سے پنجاب میں برسرِاقتدار ہونے کے باوجود بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی۔
تاہم، مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں یا پھر وہ جماعتیں ملکی سیاست میں متحرک ہیں انہیں نچلی سطح سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں بڑھتا ہوا عدم اطمینان جائز ہے۔
ایک نوجوان سیاستدان، جن کا نام یہاں ظاہر نہیں کیا جارہا، انہوں نے ٹوئٹر اسپیس میں نکتہ اٹھایا کہ صحافیوں کی توجہ وفاقی سطح پر موروثی سیاست اور سیاسی جماعتوں کی اندرونی جمہوری فیصلہ سازی میں اس کے اثرات پر مرکوز ہے جبکہ مقامی سطح پر بھی لوگوں میں اس رجحان کے خلاف ناراضگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ مختلف حلقوں میں موروثی سیاست کی وجہ سے دیگر اراکین کو پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اور وفاقی انتخابات میں حصہ لینے کا موقع نہیں مل پاتا ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ والد صاحب اپنی پارٹی کا ٹکٹ اپنے بیٹے یا بیٹی کو دے دیتے ہیں جبکہ وہ لوگ جنہوں نے سالوں پارٹی کی خدمت کی ہوتی ہے یا پھر فنڈز فراہم کیے ہوتے ہیں وہ بیٹھے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن اب یہ رویہ قابلِ قبول نہیں رہا۔ اس کا ثبوت مخصوص خاندانوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف اٹھتی ہوئی آوازیں اور ہر گزرتے انتخابات کے ساتھ ہی حلقوں میں امیدواروں کی تعداد میں ہونے والا اضافہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان امیدواروں کے پاس سیاست کے علاوہ کوئی دوسرا میدان بھی نہیں ہے۔
درحقیقت حلقوں کی سطح پر ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی اراکین نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی بنا پر پی ٹی آئی کے منحرف رکن سلمان نعیم نے بھی 2018ء میں آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔
انہوں نے بعدازاں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ سے ضمنی انتخاب لڑا اور پی ٹی آئی کے زین قریشی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کیا لیکن اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ سیاسی مقابلے کو چند افراد تک محدود کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مزید امیدواروں کو مقابلے میں شامل کریں۔ بصورتِ دیگر عوامی تناؤ سے سیاسی جماعتیں کمزور ہوں گی اور ان کی انتخابی جیت کے امکانات بھی کم ہوجائیں گے۔
تو اس نوجوان سیاستدان اور ایک اور صاحب نے ٹوئٹر اسپیس پر یہی دلیل پیش کی کہ مقامی حکومتیں عدم اطمینان کی اس فضا کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
باقاعدہ انتخابات کے ساتھ بااختیار بلدیاتی حکومتوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے متعدد امیدواروں کو انتخابی عمل میں شامل ہونے کا موقع ملے گا۔ دوسرے الفاظ میں اگر دیگر سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی، پی ٹی ایم حتیٰ کراچی میں جماعتِ اسلامی کے دوبارہ طاقتور ہونے جیسے چیلنج سے نمٹنا چاہتی ہیں تو انہیں تنگ نظری کی سیاست کو ترک کرنا ہوگا۔
اسی دوران کراچی کے مقامی صحافی ضیاالرحمٰن نے مدعا اٹھایا کہ جماعتِ اسلامی نے خود کو ایک ایسی جماعت کے طور پر دوبارہ متعارف کروایا ہے جو سیوریج، پانی اور بجلی کے بلوں پر عوام کی مدد کرکے کراچی کے مقامی مسائل پر توجہ دینا چاہتی ہے۔ یہ سب کرکے انہوں نے گوادر کی حق دو تحریک کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی ہے جس کی قیادت بھی جماعتِ اسلامی کے ایک مقامی رہنما کررہے ہیں۔ کراچی میں ان کی کامیاب مہم توجہ طلب تھی کیونکہ کچھ بھی ہو عام ووٹر کو صرف بنیادی خدمات کی فراہمی سے ہی سروکار ہوتا ہے۔
کراچی میں جماعتِ اسلامی کی کارکردگی، حق دو تحریک کی مقامی مسائل پر توجہ، پی ٹی ایم کی جانب سے مقامی آبادی کی شکایات کو اجاگر کرنا اور شہری مراکز کا اپنے رہائشیوں کو سہولیات فراہم کرنے سے قاصر رہنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمیں وفاق بمقابلہ صوبوں کی بحث کے بجائے ہر سطح پر جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں، ریاست اور معاشرے کو آگے بڑھنے کے لیے یہی راستہ اپنانا چاہیے۔
18ویں ترمیم اس سمت میں اٹھایا جانے والا درست قدم تھا لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی اور اب یہ صوبائی سطح پر جاگیرداری کی سی صورت اختیار کرگیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اقدامات اٹھائیں اور مرکزی قوت کے ان تمام ڈھانچوں کو مسمار کردیں جو نچلی سطح سے آنے والا دباؤ برداشت نہیں کرسکتے۔
وضاحت: پیر کی صبح ملک بھر میں ہونے والے بجلی کے بریک ڈاؤن کی وجہ سے اس مضمون کی تحریر میں کچھ مشکل پیش آئی۔ میرے لیے ہر ہفتے آرٹیکل لکھنا ویسے ہی وقت سے مقابلہ کرنے کے مترادف ہوتا ہے لیکن اس بار میرا مقابلہ لیپ ٹاپ کی ختم ہوتی بیٹری سے تھا۔ چونکہ پورا ملک ہی بجلی کے تعطل کا شکار تھا اس لیے میرے بس میں کچھ نہیں تھا۔ اس وجہ سے اگر تحریر میں کوئی کوتاہی ہوگئی ہو تو میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
یہ مضمون 24 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔