اسٹیٹ بینک کی بینکوں کو درآمد کنندگان کو ’ایک دفعہ سہولت فراہم‘ کرنے کی ہدایت
اسٹیٹ بینک نے درآمدات کے حوالے سے جاری بحران کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ مخصوص اشیا پر پیشگی شرائط ختم کرکے ایک دفعہ سہولت فراہم کریں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری ہدایت نامے میں کہا گیا کہ ’مرکزی بینک نے کاروباری اداروں کی سہولت کے لیے مخصوص درآمدی سامان، ایچ ایس کوڈ چیپٹرز 84اور 85 میں آنے والی اشیا اور ایچ ایس کوڈ چیپٹر 87 کے تحت بعض اشیا، کی پیشگی منظوری شرائط واپس لے لی ہے‘۔
بینکوں کو عمومی ہدایت میں بتایا گیا کہ مذکورہ اشیا کی جگہ ’خوراک، ادویات اور توانائی جیسی ضروری اشیا کی درآمد کو ترجیح دیں‘۔
عمومی ہدایت کے مطابق ’کاروباری برادری نے بشمول تجارتی تنظیموں اور چیمبرز آف کامرس، یہ بات اجاگر کی ہے کہ درآمدی اشیا لے کر آنے والے شپنگ کنٹینرز کی بڑی تعداد بندرگاہوں پر پھنسی ہوئی ہے کیونکہ بینکوں کی جانب سے شپنگ کی دستاویزات جاری کرنے میں تاخیر کی جا رہی ہے‘۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ ’اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایسے تمام درآمد کنندگان کو ایک بار سہولت فراہم کریں جو یا تو اپنی ادائیگی کی میعار 180 دن تک یا اس سے مزید توسیع دے سکتے ہوں یا جو اپنی زیرالتوا درآمدی ادائیگیوں کے تصفیے کے لیے بیرون ملک سے رقوم کا بندوبست کرسکیں‘۔
اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ ’بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے وہ 31 مارچ 2023 تک ان شپمنٹس یا اشیا کی دستاویزات کو پروسیس کرکے جاری کریں جو پاکستانی بندرگاہ پر آچکی ہوں یا 18 جنوری 2023 کو یا اس سے قبل روانہ ہوچکی ہوں‘۔
مرکزی بینک نے بتایا کہ ’بینکوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے صارفین کے لیے علم یہ بات لائیں کہ وہ مستقبل میں کسی زحمت سے بچنے کے لیے کوئی بھی درآمدی لین دین شروع کرنے سے پہلے اپنے بینک کو اس سے آگاہ کریں‘۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے یہ ہدایت جاری کرنے سے قبل کاروباری شخصیات نے گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کو ایک اجلاس میں آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا کہ غذائی اشیا، ادویات اور صنعتی خام مال سے لدے ہوئے 5 ہزار 700 کنٹینرز بندرگاہ میں کھڑے ہیں۔
بینکوں کی جانب سے اسٹیٹ بینک کی ہدایت پر اکثر درآمد کنندگان کو لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے کی اجازت دینے سے انکار کیا جا رہا تھا کیونکہ ملک میں ڈالر کی قلت تھی اور ڈالر کی کمی کے باعث درآمد پر انحصار کرنے والی صنعتوں کی سرگرمیاں ملک بھر میں تعطل کا شکار ہوگئی تھیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں مرکزی بینک نے کئی درآمدی اشیا پر نرمی کردی تھی، جن میں خام مال اور برآمد کنندگان کو درکار چند بنیادی اشیا شامل تھیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس جب ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی آرہی تھی تو اسٹیٹ بینک نے ڈالر کا استعمال کم کرنے کے لیے درآمدی پابندیاں عائد کردی تھیں۔
اسٹیٹ بینک کے اس اقدام کا صنعت پر منفی اثر پڑا تھا اور مسلسل تینوں مہینوں تک بڑے پیمانے پر پیدوار سکڑ گئی تھی اور حالیہ ہفتوں کے دوران متعدد کمپنیوں نے ان پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے آپریشنز جزوی طور پر معطل کردیے تھے۔