سیاسی عدم استحکام،ویزوں کے اجرا میں تاخیر: گلگت بلتستان میں پہاڑی مہم جوئی شدید متاثر
ملک میں بڑھتی سیاسی بے یقینی، عدم استحکام کی صورتحال اور ویزوں کے اجرا میں تاخیر نے غیر ملکی مہم جوؤں کے رواں موسم سرما کے دوران گلگت بلتستان کا دورہ کرنے اور دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کو سر کرنے کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا اور رواں سیزن کے دوران ایک بھی غیر ملکی مہم جو چوٹیاں سر کرنے نہیں پہنچ سکا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ زیادہ پرمٹ فیس اور امریکا، آسٹریلیا، سعودی عرب کی جانب سے اپنے شہریوں کو پاکستان کا سفر کرنے سے متعلق ایڈوائزری نے غیر ملکی سیاحوں کی آمد کو روکنے میں کردار ادا کیا۔
گلگت بلتستان کے محکمہ سیاحت کے مطابق رواں موسم سرما میں مہم جوئی کے لیے کسی بھی غیر ملکی مہم جو یا ٹریکنگ گروپ کو اجازت نامہ جاری نہیں کیا گیا، یہ سیزن عموماً نومبر سے فروری تک جاری رہتا ہے اور سیزن ایک ماہ سے کچھ زیادہ عرصے کے بعد ختم ہونے والا ہے جب کہ اب کسی بھی ایڈونچر گروپ کے آنے کی توقع نہیں ہے کیونکہ انہیں عام طور پر مہم جوئی کی تیاری کے لیے کم از کم 2 ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
رواں موسم سرما میں نانگا پربت کی چوٹی سر کرنے کے لیے جانے کے صرف 2 غیر ملکی مہم جو گروپوں نے ویزا حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی لیکن ویزوں میں تاخیر نے انہیں اپنے منصوبے منسوخ کرنے پر مجبور کردیا۔
یہ صورتحال گزشتہ برسوں کے بالکل برعکس ہے جب سیکڑوں غیر ملکی کوہ پیماؤں نے موسم سرما میں کے ٹو اور نانگا پربت جیسے بلند پہاڑوں کو سر کرنے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔
اس کے علاوہ گزشتہ موسم گرما پہلا موقع تھا جب ایک ہزار 600 سے زیادہ عالمی کوہ پیماؤں نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا۔
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری نے ڈان کو بتایا کہ ملک میں موجودہ سیاسی بے یقینی صورتحال اس زوال کا بنیادی سبب ہے جب کہ بہت سے مہم جو سیاحوں نے خطے کے دورے منسوخ کردیے۔
تاہم گلگت بلتستان کے ٹور آپریٹر اصغر علی پورک نے ڈان کو بتایا کہ سیاحوں کی عدم آمد کی بنیادی وجہ ویزا پالیسی ہے، اس پالیسی کے نتیجے میں ویزوں کے اجرا میں تاخیر ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ درخواست دینے کے بعد ٹریکرز اور کوہ پیماؤں کو ویزا جاری کرنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہے، غیر ملکی مہم جو سیاح اس کے مطابق اپنے منصوبے نہیں بناسکے۔
گزشتہ موسم سرما میں کئی غیر ملکی مہم جو گروپوں کو آگنائز کرنے والے اصغر علی پورک نے کہا کہ اس صورتحال کی ایک اور وجہ رواں سال اجازت نامے کی رائلٹی فیس میں 40 فیصد اضافہ بھی ہے۔
رابطہ کرنے پر محکمہ سیاحت گلگت بلتستان کے ایک عہدیدار نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان آنے والے ایڈونچرز گروپ کی تعداد میں کمی کی وجہ سیاسی عدم استحکام اور ویزا نظام ہے۔
گلگت بلتستان مقامی اور غیر ملکی کوہ پیماؤں کی من پسند اور ترجیحی منزل ہے کیونکہ دنیا کے 8 ہزار میٹر سے بلند 14 پہاڑوں میں سے 5 پاکستان میں واقع ہیں، پاکستان میں موجود چوٹیوں میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے-2 بھی شامل ہے جو 8 ہزار 611 میٹر بلند ہے۔
اس کے علاوہ نانگا پربت (8 ہزار 126 میٹر نویں بلند ترین چوٹی)، گیشر برم-1 (8 ہزار 80 میٹر گیارہویں) براڈ پیک (8 ہزار 51 میٹر بارہویں) اور گیشر برم-2 (8 ہزار 35 میٹر تیرہویں) دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ہیں۔
گزشتہ سال دنیا بھر سے ایک ہزار 400 کوہ پیما مختلف چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے پاکستان آئے تھے۔