• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

حکومت منی بجٹ لانے کو تیار، مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ

شائع January 23, 2023
— فائل فوٹو: ٹوئٹر
— فائل فوٹو: ٹوئٹر

حکومت نے بالآخر کار ایک منی بجٹ پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دیگر تحفظات کو بھی دور کیا جاسکے تاہم اس سے مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ابھرتی ہوئی سیاسی بے یقینی کی صورتحال معاشی بحالی کے راستے میں چیلنج کا باعث بن رہی ہے۔

دوسری جانب شرح سود اور مہنگائی کی انتہائی بلند سطح، عالمی اقتصادی سست روی، اجناس کی غیر مستقل قیمتیں اور روس اور یوکرین کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ کی وجہ سے ناموافق عالمی ماحول بھی بڑا چیلنج ہے۔

حکومت کو اس فیصلے کے نتیجے میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور پھر ملک بھر میں عام انتخابات سے قبل جلد ہی سخت فیصلے لینے ہوں گے جو کہ ووٹرز کے لیے کڑوی گولیاں ثابت ہوں گے۔

بجلی کی قیمتوں میں تقریباً 30 فیصد اضافہ، گیس کی قیمتوں میں 60 سے 70 فیصد یا اس سے بھی زیادہ اضافہ، نئے ٹیکس اقدامات اور شرح سود میں اضافہ آنے والے معاشی طوفان کے نمایاں ثمرات ہوں گے۔   ماہرین اقتصادیات کے مطابق ان اقدامات کے مشترکہ اثرات سے مہنگائی کی شرح میں مزید 5 سے 10 فیصد تک اضافہ ہوگا جو پہلے ہی 25 فیصد کے اردگرد منڈلا رہی ہے۔

پی ٹی آئی اور موجودہ حکومت دونوں سے وابستہ رہنے والے ایک ماہر معیشت نے کہا کہ ’اس کے سیاسی اثرات ہوں گے اور یہ بہت تلخ ہوں گے‘۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ان اقدامات کے ساتھ ساتھ ملک میں اس وقت موجود 3 الگ الگ فارن ایکسچینج مارکیٹوں کے خلاف فیصلہ کن کریک ڈاؤن نظام میں سنگین بگاڑ کو دور کرنے میں مدد کرے گا، جو پہلے ہی غیر ملکی زرمبادلہ کی خطرناک حد تک کمی کا شکار ہے۔

انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایسے نازک مرحلے پر ہوتا ہے جب معیشت جمود کا شکار ہو، اس وقت ٹرپل فاریکس مارکیٹ کی وجہ سے برآمدات اور ترسیلات زر میں کمی آرہی ہے اور سپلائی سائیڈ کے مسائل کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے‘۔

تاہم ان اقدامات کی عدم موجودگی میں مہنگائی چند ہفتوں میں 50 فیصد سے بھی تجاوز کر سکتی تھی جیسا کہ سری لنکا اور گھانا میں ہوا تھا جہاں اب مہنگائی کی شرح 70 فیصد اور 50 فیصد سے تجاوز کر رہی ہے۔

اس صورت میں بحالی کا راستہ طویل اور زیادہ تکلیف دہ ہو سکتا ہے، یہ حکمران جماعتوں اور حزب اختلاف دونوں کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے دانشمندانہ حکمت عملی اپنائیں کیونکہ معاشی فیصلوں کے حوالے سے اگلی حکومت کو اس سے بھی زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا ہوگا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کا سہارا لینا سب سے اہم اور واحد اقدام تھا جسے مارکیٹوں اور عالمی برادری کو ایک سمت دینے کے لیے ہفتوں اور مہینوں پہلے اٹھا لیا جانا چاہیے تھا۔

تاہم تاخیر کے باوجود اس فیصلے پر عمل درآمد کے بعد غیر یقینی کی صورتحال کو جزوی طور پر دور کرنے میں مدد ملے گی اور پریشان حال کاروباری طبقے کو یہ اشارہ ملے گا کہ مخلوط حکومت اپنے سیاسی نقصان کے باوجود سنجیدہ اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے طے پا جانے کی صورت میں لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر فوری طور پر جاری ہوں گے اور اس سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے دوست ممالک سمیت قرض دہندگان سے مالی امداد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

دوست ممالک نے پہلے ہی عوامی سطح پر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ذمہ دارانہ انداز اختیار کرنے اور اصلاحات کے بعد ہی اضافی وسائل کے ساتھ پاکستان کی مدد کی جائے گی۔

پی ڈی ایم حکومت ایک دوراہے پر کھڑی ہے، اس کے لیے ایک آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ عام انتخابات کا اعلان کردیا جائے اور 5 سالہ مینڈیٹ والی نئی حکومت کو اس سے بھی زیادہ سخت فیصلے کرنے دیں لیکن اس وقت تک بحران مزید خطرناک شکل اختیار کرلے گا۔

نئی حکومت کو وہ تمام ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنی ہوں گی جو سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور سے اب تک آنے والی تمام حکومتوں میں زیر التوا رہیں اور اس کے لیے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہوگی۔

خسارے میں چلنے والے اداروں خصوصاً بجلی اور گیس کمپنیوں کی نجکاری، ریگولیٹرز کی جانب سے توانائی کے شعبے کے لیے ٹیرف کے انتظام اور چینی، گندم اور کھاد وغیرہ جیسی اشیا کے لیے شفاف سبسڈی کو تمام فریقین نے ہمیشہ اس وقت حمایت کی ہے جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں اور جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں۔

سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر عبدالقیوم سلہری نے کہا کہ ’جب ہمارے سعودی عرب جیسے دوست مالی امداد سے پہلے اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسد عمر کی طرح دوبارہ کسی وزیر خزانہ کو آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لینے کے لیے 8 سے 9 ماہ کا وقت نہیں ملے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں عالمی برادری سے اس وقت تک توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں جب تک کہ ہم ان کی توقعات پر پورا نہ اتریں‘۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024