ٹیکس اقدامات پر حکومت کی غیر فیصلہ کن حکمت عملی کے باعث معاشی بے یقینی برقرار
عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) پروگرام کے تحت نویں جائزہ قسط میں تاخیر سے پیدا ہونے والی معاشی بے یقینی صورتحال کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کی اقتصادی ٹیم محصولات کے تخمینوں پر فیصلہ کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ٹیکس حکام کے ابتدائی تخمینوں کے مطابق مختلف ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنے سے ایک کھرب روپے اکٹھا ہونے کا تخمینہ لگایا گیا جبکہ حکومت کو تجویز کردہ فلڈ لیوی سے مزید ایک کھرب روپے آنے کی توقع ہے۔
تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اپنے تخمینے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے سامنے پیش کیے جس میں کہا گیا کہ درآمدات میں کمی کے باوجود ملک میں جاری بلند ترین مہنگائی کی سطح سے بجٹ کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ایف بی آر کے ذرائع نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ اور اضافی ریونیو حاصل کرنے اور بیش قیمت اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کرنے کے لیے ابتدائی کام مکمل کرلیا ہے۔
آئی ایم ایف حکام کے تخمینے کے مطابق مالی سال 23-2022 میں 4 کھرب روپے کی کمی آئے گی جسے ایف بی آر نے مسترد کردیا ہے، حکام نے کہا کہ ہم نے ریونیو حاصل کرنے کے لیے تخمینے مرتب کیے ہیں تاہم ایف بی آر کو ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا۔
عالمی بینک نے بھی مختلف ٹیکس پالیسی اقدامات کا جائزہ لیا اور ان اقدامات پر عمل درآمد کے لیے مختلف پالیسی اقدمات کے حوالے سے تجاویز پیش کیں، ان پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے سے پاکستان کو فنڈز کے اجرا میں تاخیر ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب ایف بی آر کی مرتب کردہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ درآمدی مرحلے پر محصولات کے نقصان کا جرمانہ مہنگائی سے ادا ہوجائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ پر پھنسے 4 ہزار سے زائد کنٹینرز کی کلیئرنس نہیں ہوسکی، اس سے درآمدی مرحلے پر ٹیکس وصولی اور ڈیوٹی میں کمی کے علاوہ معیشت کو بھی کافی نقصان ہوگا۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ رپورٹ میں فلڈ لیوی کی مخالفت بھی کی گئی کیونکہ اس سے صنعتکاروں کی لاگت میں اضافہ ہوگا، ایف بی آر کے ذرائع نے بتایا کہ سُپر ٹیکس کو پہلے ہی عدالت میں چیلنج کیا جاچکا ہے، امید ہے کہ عدالت عظمیٰ کیس کو جلد نمٹا لے گی۔
ایف بی آر کے تخمینوں کے مطابق نقصان کو پورا کرنے کے لیے نئے ٹیکس اقدامات کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم آئی ایم ایف نے اصرار کیا کہ 30 جون 2023 کے اختتام تک 74 کھرب 70 کروڑ روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کے لیے ریونیو کی وصول کو صحیح سمیت پر لانے کے لیے اضافی محصولات کے اقدامات کیے جائیں جو گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے میں 21.5 فیصد اضافہ ہے۔
رواں سال کی پہلی ششماہی میں ایف بی آر کی وصولی میں 17 فیصد اضافہ ہوا جو گزشتہ سال جولائی سے دسمبر کے دوران 29 کھرب 29 ارب روپے رہی، یہ نمو حکومت کے رواں مالی سال کا ہدف حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے مقابلے انتہائی کم ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تخمینے میں فرق صرف ایف بی آر کے محصولات کی وصولی تک محدود نہیں بلکہ اس میں پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی وصولی پر بھی اختلافات ہیں۔
رواں مالی سال کے دوران پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کے تحت آئی ایم ایف نے 3 کھرب روپے کی کمی کا تخمینہ لگایا ہے، جبکہ پاکستان کے وزارت خزانہ نے یہ تخمینہ 50 ارب روپے لگایا ہے جسے آئی ایم ایف نے مسترد کردیا۔
درآمدی مرحلے میں حاصل ہونے والی فلڈ لیوی، پیٹرولیم ڈویژن لیوی بالخصوص ڈیزل سے کم حاصل ہونے والی لیوی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے استعمال کی جائے گی۔
آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے ٹیکس مشینری کے حوالے سے بھی ابہام ہے، سرکاری ذرائع نے مزید بتایا کہ ’پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے ہمیں علم نہیں ہے کہ آیا کہ آیا مذکرات ورچوئل ہوں گے یا آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی۔‘