اسٹیبلشمنٹ نہ چاہے تو پاکستان میں کچھ بھی نہیں ہوتا، عمران خان
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سب سے طاقتور ادارہ ہے اور اگر اسٹیبلشمنٹ ایک دفعہ کوئی چیز نہ چاہے تو اس ملک میں وہ نہیں ہوتی۔
نجی ٹی وی بول نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے سوال پر کہا کہ کراچی میں الیکشن تو ہوا ہی نہیں، اگر اسی طرح کے الیکشن کرانے ہیں تو الیکشن کرانے کا فائدہ ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کرانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام جس جماعت کو پسند کرتے ہیں ان کو آگے آنا چاہیے لیکن جس الیکشن میں وہ جماعت جیت جائے جس سے کراچی کے لوگ نفرت کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کراچی کو کھنڈر بنا دیا ہے اور یہ رہنے کے قابل جگہ ہی نہیں رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے عوام باشعور ہیں تو وہ کیسے پیپلز پارٹی کو منتخب کر سکتے ہیں، یہ پولیس، انتظامیہ، الیکشن کمیشن اور حکومت کی دھاندلی سے مذاق کیا گیا ہے لہٰذا اسے کالعدم قرار دے دینا چاہیے۔
چیئرمین تحریک انصاف نے بلدیاتی انتخابات میں کمتر کارکردگی کی وجہ کراچی میں تنظیم کی کارکردگی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں خاص طور پر تنظیموں کا بڑا کردار ہوتا ہے کیونکہ اس میں لوگوں کو گھروں سے نکالنا ہوتا ہے تو اس میں ہماری تنظیم اس سطح کی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو نیوٹرل اپائر ہونا چاہیے تھا لیکن یہ مسلم لیگ(ن) اور ہینڈلرز کی جانب سے اتنا زیادہ کنٹرول میں ہے کہ انہوں نے آٹھ یا نو دفعہ ہمارے خلاف فیصلہ کیا ہے، پھر ہم عدالت گئے ہیں تو آٹھ سے نو مرتبہ عدالت نے فیصلہ تبدیل کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کی تاریخ میں ہم کبھی اتنا نیچے نہیں گرے جتنا آج نیچے جا چکے ہیں، ہماری معیشت کبھی اتنے بدترین بحران سے دوچار نہیں ہوئی جس بحران سے آج دوچار ہے، کبھی لوگوں کو اس ملک سے اتنی مایوسی نہیں ہوئی جتنی آج ہے، ہمارے آٹھ لاکھ پڑھے لکھے نوجوان اس ملک کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں، کبھی ملک میں قانون کی اس طرح دھجیاں اس طرح نہیں اڑائی گئیں جس طرح آج اڑائی جا رہی ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بار بار کہتے تھے کہ معیشت پر زور دیں اور احتساب کو بھول جائیں، وہ ایسا اس لیے کہتے تھے کیونکہ وہ ان کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایک جنرل باجودہ ایکسٹینشن سے پہلے تھے اور ایک ایکسٹینشن کے بعد، ایکسٹینشن سے پہلے جنرل باجوہ میڈیا کو بٹھا کر کہتے تھے کہ ان لوگوں نے کتنی چوری کی ہے، ان کی جے آئی ٹی نے تو نواز شریف کے پاناما کیسز کو ثابت کیا اور اسی وجہ سے اب نواز شریف جنرل باجوہ کو معاف نہیں کررہا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں جو نظام بن گیا ہے اور ہم جس طرح تنزلی کا شکار ہیں، اگر ہم نے اپنے آپ کو بالکل تبدیل نہ کیا بالخصوص طرز حکمرانی اور انصاف کے نظام کو نہ بدلا تو یہ معیشت بھی ٹھیک نہیں ہوگی۔
چیئرمین تحریک انصاف نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کو اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایکسٹینشن کے بعد جنرل باجوہ بدل گئے اور انہوں نے شریفوں سے سمجھوتا کر لیا اور فیصلہ کر لیا کہ وہ ان کو تمام کرپشن کے کیسز سے این آر او دے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ سب سے طاقتور ادارہ ہے، اگر ایک دفعہ یہ کوئی چیز نہ چاہیں تو پاکستان میں وہ نہیں ہوتی، نہ احتساب ہوتا ہے، نہ قانون کی بالادستی ہوتی ہے، یہ جنرل باجوہ نے ظلم کیا، انہوں نے اس کے بعد احتساب نہ ہونے دیا اور ہمیں آخر میں جا کر پتا چلا کہ حسین حقانی کو انہوں نے ہائر کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ستمبر 2021 میں انہوں نے حسین حقانی کو ہائر کیا جس نے میرے خلاف امریکا میں جا کر لابنگ کی اور جنرل باجوہ کو پروموٹ کرنا شروع کردیا، تو ڈونلڈ لو کے سائفر کی وجہہ یہ تھی کہ وہ معاملہ پہلے یہاں سے شروع کیا گیا کہ میں امریکا مخالف ہوں جس کے بعد ہی وہ سائفر آیا۔
انہوں نے کہا کہ میری نئی آرمی چیف سے کوئی بات چیت نہیں ہے اور اگر ہم آزادانہ اور شفاف انتخابات کا راستہ نہیں اپنائیں گے تو پاکستان کا بحران اس مقام پر پہنچ جائے گا کہ یہ پھر سب کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے ملک کے ساتھ وہ کیا ہے جو کوئی دشمن بھی نہ کرتا، اس تباہی کو روکنے کے لیے انہیں چاہیے کہ ایک صاف اور شفاف الیکشن کرائیں جس سے سیاسی استحکام آئے، جس پر لوگوں کو اعتماد ہو، یہ خوف کہ عمران خان اقتدار میں نہ آجائے اس کی وجہ سے یہ ملک کو تباہی کی طرف لے کر جا رہے ہیں، جو بھی معیشت سمجھتا ہے اسے معلوم ہے کہ ہم سری لنکا کی صورتحال سے محض ایک مہینے کی دوسری پر ہیں، سری لنکا صرف سوا دو کروڑ لوگ ہیں اور ہم 22کروڑ عوام ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے خیبر پختونخوا میں اپوزیشن کے اتفاق رائے سے اعظم جیسے نیوٹرل امپائر کو نگراں وزیر اعلیٰ بنایا ہے لیکن یہ پنجاب میں کیا کررہے ہیں، ہم نے نواز سکھیرا کا نام دیا جو شہباز شریف کی کابینہ کے سیکریٹری رہ چکے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ہم نے ایک نام نصیر خان کا دیا جو عالمی ادارہ صحت کے چیئرمین رہ چکے ہیں لیکن انہوں نے کس کے نام دیے، ایک آصف زرداری کا فرنٹ مین ہے اور دوسرا شہباز شریف کا فرنٹ مین ہے، انہوں نے تو اس آدمی کو کھڑا کردیا ہے جو مسلم لیگ(ن) سے بھی زیادہ نقصان پہنچائے گا اور ہم اس کو بالکل تسلیم نہیں کریں گے۔