• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال: پاکستان کو کن بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے؟

پاکستان کو معاشی بحالی کے لیے اپنی کرنسی کو مارکیٹ کی بنیاد پر لانا ہوگا تاکہ ترسیلات زر کو فروغ دینے کے علاوہ برآمدات کو بھی فروغ حاصل ہو۔
شائع January 23, 2023

یوں لگتا ہے کہ جنوری کے وسط میں حکومت اچانک نیند سے جاگی ہے اور اس نے معیشت کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے کی ٹھان لی ہے کیونکہ حکومت کو اندازہ ہوگیا ہے کہ جس طرح معیشت کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اس طرح صورتحال کو زیادہ دیر برقرار نہیں رکھا جاسکتا ہے اور حکومت کو معیشت کے حوالے سے التوا میں ڈالے گئے فیصلے اب لینا ہوں گے۔ گوکہ کافی قیمتی وقت ضائع ہوچکا ہے مگر معیشت کے لیے یہ فیصلے اہم ہیں۔

17 جنوری کو اچانک ہی گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کراچی میں متحرک ہوئے اور انہوں نے وفاقی ایوانِ تجارت و صنعت اور کراچی ایوانِ تجارت و صنعت کے عہدیداران اور اراکین سے ملاقات کی۔

اس ملاقات میں انہوں نے ایل سیز پر عائد پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی کاروباری مشکلات سے متعلق آگاہی حاصل کی۔ اس ملاقات میں گورنر اسٹیٹ بینک نے یقین دہانی کروائی کہ جلد پاکستان میں ڈالروں کی آمد شروع ہوجائے گی۔ اس دوران ایوانِ تجارت و صنعت کراچی میں صنعت کاروں نے انہیں اپنی فیکٹری کی چابیاں پیش کردیں کہ اگر درآمدات نہیں کھول سکتے تو پھر یہ فیکٹری بھی آپ ہی چلائیں۔

ابھی اس خبر کی سیاہی بھی نہیں خشک ہوئی تھی کہ اطلاع ملی کہ عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر قرض کی قسط کے اجرا کو آئندہ 6 ماہ کے لیے مؤخر کردیا گیا ہے۔ اس طرح موجودہ مالی سال کے دوران حکومت کو ملنے والی ایک بڑی رقم اب ملنے کی توقع نہیں ہے۔ عالمی بینک نے بجلی کے شعبے میں گردشی قرض کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار پر یہ قسط روکی ہے۔

اسی طرح شام میں یہ خبر بھی آئی کہ وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یوں حکومت گیس کے شعبے کے 1600 ارب روپے سے زائد سرکلر ڈیٹ کو قابو میں کرنے کے لیے گیس کی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت 650 روپے سے بڑھا کر 1100 روپے کرنے اور بجلی کے ٹیرف کو 4 روپے مہنگا کرنے کے علاوہ مشروبات اور سگریٹ پر ٹیکس اور پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی بڑھانے پر غور کررہی ہے اور منی بجٹ کے ذریعے 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔ مگر یہ تمام اقدامات اٹھانے میں شاید حکومت نے خاصی دیر کردی ہے۔

حکومت کے سخت اقدامات اٹھانے کا مقصد آئی ایم ایف سے پروگرام کی بحالی ہے تاکہ دوست ممالک اور دیگر قرض دینے والے عالمی اداروں سے وعدہ کردہ رقوم پاکستان کو مل سکیں۔

اس تمام خبر میں یہ بات اہم ہے کہ حکومت ڈالر کی قدر کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر زرِمبادلہ لانے کا اہم ترین ذریعہ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر ہیں مگر ان میں کمی دیکھی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عالمی سطح پر معاشی بحران کی وجہ سے بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد کم ہوگئی ہو۔ مگر اس خیال سے اوورسیز ایمپلائز پروموٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان اتفاق نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ سال 2022ء میں 8 لاکھ پاکستانیوں نے بیرونِ ملک ملازمت اختیار کی جبکہ سال 2021ء میں یہ تعداد 2 لاکھ 88 ہزار تھی۔ یعنی ایک سال میں بیرونی ملازمت اختیار کرنے والوں کی تعداد میں 3 گنا کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

  پاکستان میں سرکاری سطح پر زرِمبادلہ لانے کا اہم ترین ذریعہ ترسیلاتِ زر ہیں
پاکستان میں سرکاری سطح پر زرِمبادلہ لانے کا اہم ترین ذریعہ ترسیلاتِ زر ہیں

سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر ملکی معیشت کا اہم حصہ ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ترسیلاتِ زر ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر اضافے کے ساتھ مالی سال 2022ء میں 31 ارب ڈالر رہیں جو ملکی جی ڈی پی کا 8 فیصد تھا۔ یہ ترسیلات ملکی زرِمبادلہ ذخائر کا اہم جز ہوتی ہیں مگر گزشتہ چند ماہ سے ترسیلاتِ زر میں کمی دیکھی جارہی ہے۔ دسمبر میں ترسیلاتِ زر 19 فیصد کی کمی کے بعد 2 ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔

موجودہ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کی تعیناتی کے بعد سے پاکستانی روپے کی قدر کو مارکیٹ کے مطابق رکھنے کے بجائے اس کو انتظامی سطح پر کنٹرول کرنا شروع کردیا گیا ہے۔ روپے کی حقیقی قدر نہ ہونے کی وجہ سے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں پایا جانے والا فرق تیزی سے بڑھ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلیک مارکیٹ بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اسحٰق ڈار کے بطور وزیرِ خزانہ بننے کے بعد سے اب تک ترسیلاتِ زر میں 16 فیصد کمی ہوئی ہے اور پاکستان کو سرکاری سطح پر موصول ہونے والے زرِمبادلہ میں اکتوبر سے دسمبر تک 6.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

اس وقت انٹر بینک میں ایک ڈالر 229 روپے کا دستیاب ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 238.75 روپے پر مگر بلیک مارکیٹ میں ڈالر 265 روپے تک میں فروخت ہورہا ہے۔

مقامی کرنسی کی قدر کو کنٹرول کرنے کے نقصانات کیا ہوتے ہیں یہ پاکستان میں اس وقت ظاہر ہورہا ہے۔ مگر خطے کے 2 ملک سری لنکا اور بنگلہ دیش نے بھی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی جس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس حوالے سے ان ممالک پر نظر ڈالتے ہوئے پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں۔

  اسحٰق ڈار کی تعیناتی کے بعد پاکستانی روپے کی قدر کو  انتظامی سطح پر کنٹرول کرنا شروع کردیا گیا ہے— تصویر: پی ایم ایل این
اسحٰق ڈار کی تعیناتی کے بعد پاکستانی روپے کی قدر کو انتظامی سطح پر کنٹرول کرنا شروع کردیا گیا ہے— تصویر: پی ایم ایل این

ترسیلاتِ زر میں کمی کی اہم وجہ یہ ہے کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے علاوہ بلیک مارکیٹ ریٹس پیدا ہوگئے ہیں اور اسی وجہ سے زرِمبادلہ کی دستیابی میں قلت کا سامنا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے حکم کے مطابق ایکسچینج کمپنیوں کو 100 فیصد ڈالر بینکوں کو فراہم کرنے ہیں۔ بینکوں کے درمیان لین دین کے لیے استعمال ہونے والے انٹر بینک ریٹ پر درآمدات اور برآمدات کی جاتی ہیں۔ انٹر بینک میں ڈالر 228 روپے کے قریب ہے۔ بینکوں کے خلاف تحقیقات کے اعلان سے قبل یہ 240 روپے ہوگیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسحٰق ڈار نے ڈالر پر انتظامی کنٹرول رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے انٹر بینک میں ڈالر کی قدر اپنی حقیقی قدر سے بہت کم ہے ۔ جیسا کہ اوپن مارکیٹ سے بھی ڈالر اسی وقت خریدا جاسکتا ہے جب آپ اپنی سفری دستاویزات دکھائیں گے۔ پابندیوں کی وجہ سے بلیک مارکیٹ تیزی سے ابھر رہی ہے جہاں پر ڈالر 260 روپے سے 265 روپے میں دستیاب ہے۔ یعنی انٹر بینک میں ڈالر 15 سے 20 فیصد پریمیم پر فروخت ہورہا ہے۔

سری لنکا کے ڈیفالٹ ہونے میں ترسیلاتِ زر کا اہم کردار تھا کیونکہ سری لنکا کے ترسیلاتِ زر میں تیزی سے کمی ہوئی تھی کیونکہ اس کے انٹربینک، اوپن مارکیٹ اور بلیک مارکیٹ ریٹس میں بڑا فرق پیدا ہوگیا تھا۔

سری لنکا ڈیفالٹ کیوں ہوا؟

سری لنکا کا بھی پاکستان کی طرح ترسیلاتِ زر پر بہت انحصار ہے۔ سال 2020ء میں سری لنکا کی ترسیلاتِ زر 81 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تھیں، مگر سری لنکا کے مرکزی بینک نے زرِمبادلہ ذخائر میں کمی کے باوجود اپنے سرکاری شرح مبادلہ کو تبدیل نہیں کیا جس کے سبب سال 2021ء میں سمندر پار سری لنکن محنت کشوں نے ڈالر سرکاری ذرائع کے بجائے ہنڈی حوالہ سے بھجوانا شروع کردیے یوں دسمبر 2021ء میں ترسیلات 32 کروڑ 50 لاکھ ڈالر رہ گئیں۔

اس کمی کی وجہ سے اوپن مارکیٹ بلیک مارکیٹ اور انٹر بینک ریٹس میں 17 سے 20 فیصد تک فرق آگیا۔ سری لنکا کے زرِمبادلہ ذخائر دسمبر 2020ء میں 5 ارب 70 کروڑ ڈالر تھے جو دسمبر 2021ء میں 3 ارب 10 کروڑ ڈالر رہ گئے مگر سری لنکا نے اپنی شرح مبادلہ کو ایک ڈالر کے مقابلے 200 سری لنکن روپے پر مستحکم رکھا اور اس پالیسی کی وجہ سے سری لنکا مئی 2022ء میں غیر ملکی قرضوں پر ڈیفالٹ کرگیا۔

سری لنکا نے مارچ 2022ء سے اپنی کرنسی کو ڈی ویلیو کرنا شروع کیا اور ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کو 50 فیصد تک کم کیا مگر یہ صورتحال بھی ملک کو ڈیفالٹ سے نہ بچا سکی۔ ڈیفالٹ کے بعد جب سری لنکا نے اپنی کرنسی کو ڈی ویلیو کرنا شروع کیا ہے تو اب اس کے بعد سے ڈالر کی ترسیل بہتر ہوئی ہے۔ فروری 2022ء میں سری لنکا کی ترسیلاتِ زر 20 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی کم ترین سطح سے بڑھ کر نومبر 2022ء میں 38 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ہوگئیں جو 87 فیصد کا اضافہ دکھاتا ہے۔

  سری لنکا مئی 2022ء میں غیر ملکی قرضوں پر ڈیفالٹ کرگیا تھا
سری لنکا مئی 2022ء میں غیر ملکی قرضوں پر ڈیفالٹ کرگیا تھا

بنگلہ دیش کا مالی بحران

سری لنکا کی طرح بنگلہ دیش نے بھی اپنی مقامی کرنسی کو مستحکم رکھنے کی پالیسی اپنائی جس کی وجہ سے جون 2021ء میں بنگلہ دیش کی ترسیلات میں کمی کا عمل شروع ہوا۔

مئی 2021ء میں بنگلہ دیش کی ترسیلات 2 ارب 20 کروڑ ڈالر سے کم ہوکر فروری 2022ء میں ایک ارب 49 کروڑ ڈالر رہ گئیں۔ اس دوران بنگلہ دیش نے اپنے ٹکے کی قیمت کو سری لنکا کی طرح مستحکم رکھا اور ایک ڈالر بنگلہ دیش کے 84 سے 85 ٹکے میں دستیاب رہا۔ اس پالیسی نے بنگلہ دیش کے زرِمبادلہ ذخائر پر مزید دباؤ بڑھا دیا۔ اگست 2022ء میں بنگلہ دیش کے انٹر بینک کے مقابلے میں اوپن مارکیٹ میں پریمیم 15 سے 20 فیصد ہوگیا جبکہ بلیک مارکیٹ بھی فروغ پاگئی۔

تاہم ڈیفالٹ ہونے سے پہلے ہی بنگلہ دیش نے اپنی مستحکم شرح مبادلہ کی پالیسی تبدیل کی اور اگست 2022ء کے بعد ڈالر کے مقابلے ٹکا کی قدر میں 17 فیصد کمی کی۔ دسمبر 2022ء میں ترسیلاتِ زر میں 13 فیصد کے اضافے کے ساتھ ساتھ اوپن مارکیٹ میں پریمیم کم ہوا۔ بنگلہ دیش کے زرِمبادلہ ذخائر 41 ارب 80 کروڑ ڈالر سے کم ہوکر 33 ارب 80 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے اور اب بنگلہ دیش آئی ایم ایف کی جانب گامزن ہے۔

  ڈیفالٹ ہونے سے پہلے ہی بنگلہ دیش نے اپنی مستحکم شرح مبادلہ کی پالیسی تبدیل کرلی
ڈیفالٹ ہونے سے پہلے ہی بنگلہ دیش نے اپنی مستحکم شرح مبادلہ کی پالیسی تبدیل کرلی

پاکستان میں 1998ء جیسی صورتحال

پاکستان کو آج جیسی صورتحال کا سامنا اس وقت بھی تھا جب 1998ء میں ایٹمی تجربات کرنے کی پاداش میں پاکستان کو عالمی سطح پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت بھی خزانے کی باگ ڈور اسحٰق ڈار کے ہاتھ میں تھی اور اس وقت پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کی زرِمبادلہ آمدنی نہ ہونے کے برابر تھی تاہم روپے کی قدر کو مستحکم رکھا گیا تھا۔ پاکستان کے پاس 50 کروڑ ڈالر رہ گئے تھے اور آج ہی کی طرح انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے کی شرح مبادلہ میں پریمیم بڑھ گیا تھا اور بلیک مارکیٹ پیدا ہوگئی تھی۔

اس مارکیٹ کے خاتمے کے لیے ایکسچینج کے کاروبار سے منسلک افراد کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ ہوئی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ترسیلاتِ زر 29 فیصد کم ہوگئیں اور سالانہ ایک ارب 10 کروڑ ڈالر سے کم ہوکر مالی سال 2000ء میں 98 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اکتوبر 1999ء میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سال 2000ء میں روپے کی قدر 21 فیصد کم کی گئی۔ اس کے بعد سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر بڑھنا شروع ہوئیں اور مالی سال 2022ء میں 2 ارب 40 کروڑ ڈالر ہوگئیں۔

پاکستان کے ماضی کے تجربات اور موجودہ حالات میں سری لنکا اور بنگلہ دیش کے علاوہ دیگر ملکوں کی صورتحال دیکھتے ہوئے یہی کہا جارہا ہے کہ پاکستان کو اپنی کرنسی کی شرح مبادلہ کی پالیسی کو مارکیٹ کی بنیاد پر بنانا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوا اور ترسیلاتِ زر میں کمی کا عمل جاری رہا تو مالی سال 2023ء کے اختتام تک ترسیلاتِ زر 10 فیصد کمی کے بعد 28 ارب ڈالر رہ جائیں گی۔

پاکستان کو فوری طور پر معاشی بحالی کے لیے سب سے پہلے اپنی کرنسی کو مارکیٹ کی بنیاد پر لانا ہوگا تاکہ ترسیلاتِ زر کو فروغ دینے کے علاوہ برآمدات کو بھی فروغ حاصل ہو۔ اس کے بعد فوری طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام کو بحال کرنا ہوگا کیونکہ اگر آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہوا تو نہ تو دیگر کثیر ملکی مالیاتی ادارے اور نہ ہی دوست ملک پاکستان کی مالی معاونت کے لیے تیار ہوں گے۔ اب فیصلہ حکومتِ وقت کو ہی کرنا ہے۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔