• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

ماہکان: خاران میں روشنی کی کرن

شائع March 8, 2023
ماہکان— تصویر:لکھاری
ماہکان— تصویر:لکھاری

ماہکان سے میرا تعارف ایک چھوٹی سی ویڈیو کے ذریعے ہوا۔ اس ویڈیو میں میرے دوست اور ضلع خاران کے ڈپٹی کمشنر منیر موسیانی اسکول کے ایک کمرے میں کھڑے ہیں اور ماہکان نامی بچی ان سے اپنی مادری زبان بلوچی میں گفتگو کررہی ہے۔

ماہکان کے روایتی بلوچی لہجے کی وجہ سے اس کی گفتگو کا کچھ حصہ ہی مجھے سمجھ آیا اور وہ یہ تھا کہ وہ اسکول میں چوکیدار اور صفائی کے عملے کی عدم موجودگی کے حوالے سے بات کررہی تھی۔ بات کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں کی حرکات متاثرکُن تھی۔ خاران کے دور افتادہ گاؤں میں مقیم ماہکان عام بچوں سے کافی مختلف لگی۔

مجھے ماہکان کی بلوچی کچھ خاص سمجھ تو نہیں آئی تھی لیکن اس کے باوجود میں اس سے ملنا چاہتا تھا۔ تاہم مجھے مشورہ دیا گیا کہ میں ماہکان کے گاؤں اری کلگ نہ جاؤں۔ یہ گاؤں خاران کے مغرب میں ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔

اس کے بجائے ماہکان ایک دن اسکول سے چھٹی لے کر مجھ سے گفتگو کرنے اپنے کزن کے ہمراہ خاران آئی۔ بلوچی زبان میں ماہکان کے نام کا مطلب ’چاندنی‘ ہے اور ایک نہ ایک دن وہ ضرور خاران کی یا پھر وہ جہاں بھی ہوگی وہاں کی تاریکی کو اپنی روشنی سے دور کردے گی۔

11 سالہ ماہکان گاؤں اری کالگ کے پرائمری اسکول کی پانچویں جماعت میں زیرِتعلیم ہیں۔ ان کا تعلق رند قبیلے سے ہے اور وہ 5 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ ماہکان کے والد اور والدہ دونوں تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے والد لڑکوں کے مقامی اسکول کے پرنسپل ہیں جبکہ اس کی والدہ اسی پرائمری اسکول میں پڑھاتی ہیں جس میں ماہکان زیرِ تعلیم ہے۔

شاید ماہکان کی خوداعتمادی کے پیچھے یہی وجوہات ہیں۔ وہ نہایت صاف اردو بولتی ہے جبکہ اس کی عمر کے سندھی، پختون یا پنجابی بچے جب اردو بولتے ہیں تو اس میں ان کی مادری زبان کا لہجہ جھلکتا ہے۔ میرے ساتھ گفتگو میں ماہکان نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا؛

’بچے یہاں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہماری ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمیں تعلیم کے لیے موزوں ماحول فراہم کرے۔ صحت مند اور صاف ماحول بنیادی ضرورت ہے اور کیوں نہ ہو جب جانور بھی اپنے بیٹھنے کی جگہ کو صاف رکھتا ہے۔ ہمارے پاس چوکیدار تک موجود نہیں ہے جس کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ اسکول شروع ہونے سے پہلے اسکول کی صفائی کو یقینی بنائے۔

’ہم اسکول تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں لیکن ہمیں تدریسی عمل شروع ہونے سے پہلے اسکول کی صفائی بھی کرنی پڑتی ہے۔ جب ہمیں علی الصبح اسکول آکر یہ کام کرنا ہو تو پھر ہم سے کیسے امید کی جارہی ہے کہ ہم اپنی تعلیم پر توجہ دیں گے۔ میں نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے درخواست کی تھی کہ ہمیں کم از کم چوکیدار ہی فراہم کردیں تاکہ صفائی کا کام اس کے ذمے ہو۔

’ریاست کو چاہیے کہ طلبہ کو تعلیم کی تمام سہولیات فراہم کریں تاکہ پڑھائی کے حوالے سے ان کا جذبہ ماند نہ پڑے۔ مگر ہمارے اسکول میں سہولیات کی قلت ہے اسی لیے میں نے ڈپٹی کمشنر سے مدد کی درخواست کی۔ میرے خیال میں کوئٹہ میں موجود اعلیٰ حکام کو لگتا ہے کہ بلوچ طالبات تعلیم حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ہم تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ وہ کوئٹہ میں موجود اعلیٰ حکام سے بات کریں تاکہ ہمارے اسکول کی حالت بہتر ہوسکے۔

’خواتین کے لیے لازمی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ اگر والد کام کے سلسلے میں گھر سے باہر ہوں جبکہ گھر میں بیٹا بیمار ہو، ایسے میں ایک ناخواندہ والدہ کا بچے کو دوائی دینا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ جب وہ پڑھنا نہیں جانتی تو پھر اسے کیسے پتا چلے گا کہ وہ اپنے بچے کو صحیح دوا دے رہی ہے یا نہیں؟ ایسی ماں اپنی اولاد کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ڈپٹی کمشنر سے درخواست کی کہ وہ کوئٹہ میں اعلیٰ حکام سے کہیں کہ وہ ہمارے اسکول کا دورہ کریں تاکہ وہ جائزہ لے سکیں کہ ہم کن حالات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

’اسکول کے راستے میں ایک بڑا گڑھا ہے۔ اس سے گزرتے ہوئے ہمیں انتہائی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک لڑکی اس گڑھے میں گر بھی گئی تھی۔ خوش قسمتی سے اسے زیادہ چوٹ نہیں آئی لیکن اسے گہرے زخم بھی آسکتے تھے۔ میں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ کسی سنگین حادثے سے قبل وہ انتظامیہ کو گڑھا بھرنے کی ہدایت کریں۔‘

میں نے ماہکان سے پوچھا کہ اتنی چھوٹی عمر میں وہ یہ سب کیسے سوچ لیتی ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ

’انسان کے پاس ذہن کس لیے ہوتا ہے؟ سوچنے کے لیے ہی تو ہوتا ہے۔ اگر آپ غور کریں گے تو آپ کے ذہن میں ایسے خیالات ضرور آئیں گے۔ سوچے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ ہمیں اپنے دماغ کو غوروفکر کے لیے استعمال کرنا ضرور آنا چاہیے۔

’میں جب چھوٹی تھی تب میں پاک فوج میں شامل ہونا چاہتی تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ میں قانون کی تعلیم حاصل کر کے جج بنوں گی اور لوگوں کو انصاف فراہم کروں گی۔ لیکن اب نہیں۔ اس دن جب ڈپٹی کمشنر نے ہمارے اسکول کا دورہ کیا، انہیں دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں ان کے جیسی بنوں گی۔ میں ان کی طرح دور دراز گاؤں میں جا کر لوگوں کی حالتِ زار کا جائزہ لوں گی اور ان کی شکایات دور کرنے کی کوشش کروں گی۔ میں صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی سوچوں گی۔ بلوچستان کی عوام کو لگتا ہے کہ ہمیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ میں لوگوں کی یہ سوچ بدلنے کی کوشش کروں گی۔

’میں چاہتی ہوں کہ میں موجودہ ڈپٹی کمشنر جیسی بنوں۔ اس سے قبل بہت سے لوگ اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں لیکن کسی نے بھی ہمارے گاؤں کا دورہ نہیں کیا۔ کسی نے آکر کبھی ہم سے دریافت نہیں کیا کہ ہم کس حال میں جی رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب ہم نے اپنے ڈپٹی کمشنر کو دیکھا۔ اگر ڈی سی چاہے تو لوگوں کے دلوں سے یہ احساس نکال سکتا ہے کہ انہیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔

’دیکھیں آج ہم دنیا سے کتنا پیچھے رہ گئے ہیں۔ میرے گاؤں اری کالگ میں تو بجلی کی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ اندھیرا چھا جانے کے بعد ہمیں اپنا ہوم ورک ختم کرنے یا کچھ پڑھنے میں بےحد دشواری ہوتی ہے۔ ایسے میں آپ اسپتالوں کے بارے میں تو نہ ہی پوچھیں۔ ہمارے گاؤں میں مرکزِ صحت کی عمارت موجود ہے لیکن وہاں کبھی کوئی ڈاکٹر نہیں آیا۔ کوئٹہ یہاں سے 300 کلومیٹر سے بھی زیادہ دور ہے۔ اگر کسی بیمار شخص کو اتنا دور لے جایا جائے تو خدشہ ہوتا ہے کہ وہ راستے میں دم نہ توڑجائے۔

’میرے بہت سے خواب ہیں اور وہ اس لیے ہیں کیونکہ میں پڑھی لکھی ہوں اور خواب بننے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ لیکن میرے بھائی بہن کہتے ہیں کہ میں اچھی طالبہ نہیں ہوں حالانکہ میں ہمیشہ امتحانات میں اول آتی ہوں۔ صرف ایک یا دو دفعہ میری دوسری پوزیشن آئی تھی۔ میں اپنا ہوم ورک کرتے ہوئے بھی کبھی اپنے والدین یا بھائی بہنوں کی مدد نہیں لیتی، اس کے باوجود بھی میرے بھائی بہن مجھے کم عقل کہتے ہیں۔ لیکن مجھے اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

ماہکان نے مجھے بتایا کہ انگریزی اس کا پسندیدہ مضمون ہے اور اس مضمون میں بھی اسے اپنے بھائی بہن کی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔

ماہکان نے بتایا کہ ’میں فارغ اوقات میں اپنے والد کی لائی ہوئی کتابیں پڑھتی ہوں۔ جب میں چھوٹی تھی تو میں دیگر لڑکیوں کی طرح گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی لیکن اب میں کرکٹ کھیلتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ لڑکیوں کی بھی کرکٹ ٹیم ہے لیکن میں اس حوالے سے زیادہ سوچتی نہیں کیونکہ میرے والد کہتے ہیں کہ مجھے صرف اپنی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔

’پانچویں جماعت ختم ہونے میں 2 ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے جس کے بعد میں مڈل اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے خاران میں اپنی دادی کے گھر منتقل ہو جاؤں گی۔ ہمارے گاؤں میں بہت سی طالبات پرائمری کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتیں کیونکہ ان کے پاس خاران میں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے وسائل موجود نہیں ہوتے اور نہ ہی وہاں ان کا کوئی رشتہ دار ہوتا ہے جن کے ساتھ وہ رہ سکیں، جبکہ غریب طالبات کی تعلیمی مدد کے لیے یہاں اسکالرشپس بھی فراہم نہیں کی جاتیں۔‘

میں نے ماہکان سے کہا کہ اسے ان معاملات کے لیے ایک بار پھر ڈپٹی کمشنر سے بات کرنی چاہیے جس پر اس نے اتفاق کیا۔ پھر میں نے کہا کہ وہ خود ڈپٹی کمشنر بن کر یہ معاملات حل کرسکتی ہے جس پر ماہکان نے کہا کہ ’اس عہدے پر پہنچنے کے لیے مجھے طویل عرصہ انتظار کرنا ہوگا۔‘

مڈل اسکول جانے کے لیے بےتاب ماہکان اپنے والد کے ساتھ خاران کے اسکول کا دورہ بھی کرچکی ہے اور وہ اس کے صفائی کے انتظامات سے مطمئن ہے۔ اس نے کہا کہ ’یہاں اسکول کی دیکھ بھال کے لیے چوکیدار بھی ہے اور طالبات کو صبح آکر صفائی نہیں کرنی ہوگی۔‘

خاران کے دور افتادہ گاؤں اری کالگ میں ماہکان کا وجود قدرت کا تحفہ ہے البتہ وہ خود کہتی ہے کہ وہ گاؤں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی اکیلی لڑکی نہیں بلکہ اس کے گاؤں میں اس کے جیسے دیگر بچے بھی ہیں۔ اپنے بہت سے خوابوں میں اس کا سب سے بڑا خواب یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرکے ایڈمنسٹریٹو سروسز میں افسر لگے۔

ماہکان سے بات کر کے مجھے یقین ہوگیا کہ وہ اپنے نام کی طرح ایک دن خاران کے لیے امید کی روشن کرن ثابت ہوں گی۔

بعدازاں ڈپٹی کمشنر منیر موسیانی سے گفتگو کرکے مجھے علم ہوا کہ وہ ماہکان کی تعلیمی اخراجات کے لیے وسائل فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مثبت قدم ہوگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دیگر ذہین طلبہ کے لیے بھی ایسے ہی اقدامات لیے جائیں گے۔

ماہکان نے خود بتایا کیا کہ وہ اسکول میں اچھی کارکردگی دکھانے والی واحد طالبہ نہیں ہے بلکہ اس جیسے اور بھی ذہین بچے ہیں۔ یقینی طور پر انہیں ماہکان کے اپنے گاؤں میں ڈپٹی کمشنر بن کر آنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس حوالے سے انتظامیہ کو آگے بڑھنا چاہیے۔


یہ مضمون 15 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

سلمان رشید

لکھاری رائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے فیلو ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024