• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

نیب ترامیم کیس: پی ٹی آئی دور میں نیب آرڈیننس سے مستفید افراد کی تفصیلات طلب

شائع January 18, 2023
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران ان کے دور میں نیب آرڈیننس سے بری اور مستفید ہونے والے افراد کی تفصیلاب طلب کرلیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ نیب ترامیم کے بعد 386 مقدمات احتساب عدالتوں سے واپس ہوئے ہیں۔

حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن نے آبزرویشن دی کہ 386 کیسز میں سے کتنے اراکین پارلیمنٹ کے تھے، عدالت یہ بھی پوچھ سکتی تھی کہ تحریک انصاف کے ساڑھے 3 سالہ دور میں 5 نیب آرڈیننس لائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت پوچھ سکتی تھی کہ تحریک انصاف کے دور کے آرڈیننسز کے تحت کتنے نیب ریفرنس واپس اور افراد بری ہوئے، عدالت یہ بھی پوچھے کہ تحریک انصاف کے آرڈیننسز سے بری ہونے والے ملزمان میں کون کون شامل ہے۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ نیب قانون میں حالیہ ترامیم پرانے قانون کا ہی تسلسل ہے، عدالت خود کو 386 نیب کیسز تک محدود نہ رکھے۔

چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے کہا کہ آپ بتا دیں نیب سے کیا سوالات پوچھیں نوٹ کرا دیتے ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ نیب بتائے کہ پی ٹی آئی کے آرڈیننسز کے ذریعے کتنے ریفرنسز واپس ہوئے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب آرڈیننسز سے کتنے افراد بری ہوئے اور ٹرائل کورٹ نے بریت کی کتنی درخواستیں واپس کیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر نیب کو ختم کر بھی دیا جائے تو جرائم کے سدباب کے لیے دیگر قوانین موجود ہیں، ایسا کہنا درست نہیں کہ نیب کیسز سے بری اور صاف شفاف ہونے والے گھر چلے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ نیب ختم ہو جانے سے قانون کی گرفت بھی ختم ہو جائے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ نیب کیسز میں جرم ثابت کرنے کا معیار ہی بدل دیا گیا ہے، سوال یہ بھی اہم ہے کہ نیب کیسز میں سزائیں ہونے کے بعد حالیہ ترامیم کا اطلاق ماضی سے کیسے ہو سکتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ نیب قانون میں ترامیم کرکے اس کا اطلاق 1985 سے کردیا جائے، نیب قانون میں حالیہ ترامیم عظیم ایمنسٹی ہیں اور یہ بڑی عجیب بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ نیب قوانین کے علاوہ دیگر قوانین بھی موجود ہیں، اگر احتساب عدالت جرم سے بری کردے تو ملزم گھر ہی جائے گا۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ کیس کے دوران میری جانب سے کیے گئے سوالات عارضی نوعیت کے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے دور میں نیب آرڈیننس سے بری اور مستفید ہونے والے افراد کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 19 جنوری تک ملتوی کر دی۔

نیب ترامیم

خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024